واشنگٹن میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اورپانچ افراد کی ہلاکت نے دنیا کو ششدر کرکے رکھ دیاہے۔ عمومی طور پر امریکہ اور یورپ میں افریقی نژاد شہری یا پھر مسلمانوں کے احتجاجی مظاہرے پُرتشدد ہوجاتے ہیں، لیکن سفید فام امریکیوں نے جس بے رحمی سے پارلیمنٹ جسے عمومی طور پر ’’کیپیٹل ہل‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، پر دھاوا بولا، اس کی کوئی مثال ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک کی عصری تاریخ میں نہیں ملتی۔امریکہ کا یہ بھیانک چہرہ ہماری نسل نے نہیں دیکھا تھا۔
سرد جنگ کے زمانے میں ’’سوویت یونین‘‘ کے ساتھ جاری سیاسی اور نظریاتی کشمکش نے عمومی طور پر جمہوریت اور انسانی آزادی کے حامیوں نے امریکہ سے توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، لیکن رفتہ رفتہ امریکہ نے بھی ایک ایسے سامراج کی شکل اختیار کرنا شروع کردی جو انسانی قدروں کے بجائے دنیا کے وسائل پر قبضے اور سیاسی غلبے کے لیے دوسرے ممالک اور تہذیبوں کو ملیا میٹ کرنے کی راہ پر گام زن ہے۔ عراق، لیبیا، شام اور افغانستان سب اس کے تجربات اور ہوسِ بالادستی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ لاکھوں لوگ قتل ہوئے اور صدیوں میں نمو پانے والا تمدن پارہ پارہ ہوگیا۔
امریکہ کے اندر ’’ری پبلکن پارٹی‘‘ اور اس کے نظریے کے ووٹرز عشروں سے موجود تھے، لیکن انہوں نے نسل پرستی کی جو شکل گذشتہ دس برسوں میں اختیار کی، وہ غیر معمولی طور پر دنیا کے امن اور امریکہ کے وقار کے لیے خطرناک ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سے پیوستہ صدارتی الیکشن میں مسلمانوں اور تارکینِ وطن کے خلاف جو ہرزہ سرائی کی، اس کی مثال امریکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ برسراقتدار آکر بھی وہ باز نہ آئے۔مسلمان ارکانِ کانگریس کو مسلسل ہدفِ تنقید نہیں بلکہ طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے رہے۔ ان کے دیکھا دیکھی مسلمانوں اور کالی رنگت والے شہریوں کو حقارت آمیز ناموں سے پکارناامریکیوں کا چلن بن گیا۔
’’کیپیٹل ہل‘‘ پر جو مناظر کانگریس کے ارکان کے بھاگنے اور جان بچانے کے دنیا نے دیکھے، وہ ناقابلِ یقین تھے۔ امریکہ جیسے طاقتور ترین ملک جہاں جمہوریت اور اداروں کے مضبوط اور مؤثرہونے پر کوئی کلام نہیں، میں ایسا واقعات کا رونما ہونا تعجب خیز ضرور ہے، لیکن بقولِ قابل اجمیری
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس گتھی کو سلجھانے کے لیے موجودہ امریکہ بحران کے بنیادی اسباب کی کھوج لگانا ہوگی۔ پیشِ نظر رہے کہ ری پبلکن یا ٹرمپ کی سیاست صرف سفیدفام نسلی گروہ کے گرد گھومتی ہے۔ وہ گورے امریکیوں کی پارٹی ہے جس طرح بھارت میں نریندرا مودی کی پارٹی 80 فی صد ہندوؤں کی جماعت ہے۔
ٹرمپ نے نسل پرستی کے دبے ہوئے جذبات کو ابھارا الیکشن جیتنے کے لیے، لیکن ایک بار انتہا پسندی کا جن بوتل سے نکل آئے، تو پھر اسے قابو کرنے کے لیے عشروں کی ریاضت درکا رہوتی ہے۔ امریکیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پولیس اور انتظامیہ بھی ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے راستہ میں کھڑی ہونے کے بجائے سہولت کار بن جاتی ہے، جیسے کہ بھارتی گجرات میں ہوا۔
ٹرمپ سے قبل صدر بارک اوباما جو افریقی نژاد امریکی تھے، برسرِاقتدار آئے، تو ری پبلکن نے سفید فام نسل پرستی کو خوب ہوا دی۔ ان کی شکایات اور محرومیوں کو باقاعدہ سیاسی بیانیہ کے قالب میں ڈھالا۔ انہیں احساس دلایا کہ اہلِ امریکہ جو دنیا کی سب سے طاقت ور قوم اور ملک کے مالک ہیں، رفتہ رفتہ اپنی عظمتِ رفتہ کھو رہے ہیں اور ان کی جگہ کالے امریکی شہری اقتدار کی راہ داری پر قابض ہوتے جا رہے ہیں۔ اس عمل کو روکا نہ گیا، تو سفید فام ا مریکی بتدریج دوسرے درجے کے شہری بن جائیں گے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے تارکینِ وطن اس ملک کے وسائل اور جاہ وحشمت کے مالک ہوں گے۔
یہ بیانیہ جنگل میں آگ کی طرح پھیلا۔ گوروں نے ری پبلکن کو ووٹ دیا۔ ری پبلکن نے اپنے میں سے سب سے نالائق اور نااہل شخص کو امریکی صدارتی امیداور نام زد کیا، جو اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی الیکشن کے ماحول سے باہر نکلا اور نہ اس نے امریکی سیاسی اور نظریاتی اقدار کی پروا کی۔ مودی ہی کی طرح اس نے بھی اپنے ملک کے آئینی ڈھانچا اور نظریاتی بنیادوں کو زک پہنچائی۔
اب مگر عالم یہ ہے کہ شدید ہنگاموں کی زد میں ’’پارلیمنٹ‘‘ جیسا مقدس ایوان بھی آچکا ہے۔
کہانی ابھی تمام نہیں ہوئی۔ ٹرمپ اور اس کے حامیوں کو اپنے کیے پر کوئی تاسف نہیں۔ انہیں کوئی فکر نہیں کہ ان کے اس عمل سے امریکہ کے عالمی امیج کو کتنا نقصان پہنچا۔ وہ اس سے بڑے اور بھرپور حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگرچہ 20 جنوری کو اقتدار نو منتخب صدر جوبائیڈن کو منتقل ہوجائے گا، لیکن نسل پرستوں نے امریکی سماج کو تقسیم در تقسیم کے ایک خطرناک عمل سے گزارنا شروع کردیا ہے۔ اس کے منفی اثرات یورپ، آسٹریلیااور کینیڈا پر بھی مرتب ہوں گے، جہاں پہلے ہی لوگ نسل اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر شہریوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنانا شروع ہوچکے ہیں۔
یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ صرف مسلم معاشروں میں ہی القاعدہ اور داعش جیسے انتہا پسندگروہ نہیں ابھرے ہیں، بلکہ پوری دنیا میں مذہب اور نسل کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کے دشمن بنتے جارہے ہیں۔
یہ رجحان اور تو اور بدھ مت کے پیروکاروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ میانمار جسے پاکستانی عمومی طور ’’برما‘‘ یا آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کے جلاوطنی کے ایام کی قیام گاہ کے طور پر یاد کرتے ہیں، کے بدھ بھکشوؤں نے بھی لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کا جینا حرام کیا۔ انہیں بے گھر کیا اور ان کی جائیداد اور وسائل ہتھیا لیے۔
تجزیہ کاروں کی اکثریت نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان مظاہروں میں افریقی امریکیوں یا مسلمانوں کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ ورنہ امریکی ریاستی اور ابلاغی مشینری دن رات زہر اگلتی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں مسلمانوں اور کالی رنگت والے امریکیوں کو نفرت اور انتقام کا نشانہ بنایاجاتا۔
بعض مغربی صحافیوں نے لکھا کہ اگر مسلمان اس عمل میں ملوث ہوتے، تو فوج سمیت پوری قوم ’’کیپیٹل ہل‘‘ کے سامنے دیوار چن دیتی۔ حملہ آوروں کو پاتال سے بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا جاتا۔ چوں کہ حملہ آور سفید فام تھے، لہٰذا سکیورٹی اداروں نے زیادہ تر چپ سادھ لی۔ ’’قانون سب کے لیے برابر ہے‘‘ کا دعوا بھی باطل ہوا۔ کیوں کہ امریکی میڈیا کے مطابق حملہ آوروں کے گروہوں میں سے اکثر نے اپنی شناخت چھپانے کی کوشش نہیں بلکہ بعض نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے عمل کی جوازیت بھی پیش کرنے کی کوشش کی۔
انہیں یقین ہے کہ عدالتیں اور پولیس ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
قارئین، حاصلِ نشست یہی ہے کہ ’’ٹرمپ‘‘ اور ان کے حامی ’’جوبائیڈن‘‘ کی کامیابی کو ہضم کرنے والے نہیں۔ امریکی سماج بری طرح تقسیم ہوچکا ہے اورتقسیم کا یہ عمل جلدی رُکنے والا نہیں۔
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔