گذشتہ چند ماہ سے ملک کا سیاسی درجۂ حرارت بہت زیادہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جو کہ دو سال سے زائد عرصہ تک بہت زیادہ دبی ہوئی تھی، اب ایک دم سے پوری شدت سے حملہ آور ہوچکی ہے۔ پہلے مرحلہ پر حزبِ اختلاف نے ایک کل جماعتی کانفرنس کرکے اس کو ایک اتحاد کی شکل دی اور دوسرے مرحلے میں اس نے مشترکہ حکمت عملی طے کرکے براہِ راست وزیرِ اعظم سے مستعفی ہونے اور اسمبلی توڑنے کا مطالبہ کر دیا۔
میری یہ ذاتی رائے ہے کہ اس صورت حال کا مکمل ذمہ دار وزیرِ اعظم خود ہے۔ جناب وزیرِ اعظم نے اول دن سے ہی حزبِ اختلاف کو دیوار سے لگانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ حلف لیتے ہی ’’چور چور‘‘، ’’ڈاکو ڈاکو‘‘، ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘، ’’بند کر دوں گا‘‘ کا منترہ جاری رکھا۔ اب جب وزیرِ اعظم کالج کے بچوں کا اجتماع ہو، سرکاری ملازمین کی تقریب ہو، اسمبلی کا فلور ہو، یا بیرونِ ملک پاکستانیوں سے خطاب، جب ایک ہی منترہ ہوگا کہ ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘، تو پھر ظاہر ہے کہ کابینہ اور غیر منتخب مشیران نے تو اپنی کارگردگی کو دکھانے واسطے خوب نمک مرچ لگا شور کرنا ہی تھا۔ دوسری طرف حکومت کی کارگردگی ہر میدان میں صفر جمع صفر ہی رہی۔ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کا شدید شکار کر دیا گیا۔ سو ان حالات میں حزبِ اختلاف کی جانب سے بہرحال تنگ آمد بجنگ آمد کا ہونا عین فطری تھا۔ حزبِ اختلاف کشمیر سے کرونا تک ہر موضوع پر ایک طرح سے مذکرات کی بھیک مانگتی رہی، لیکن حکومت مکمل رعونت سے منکر رہی۔ الٹا یہ الزام تھوپ دیا گیا کہ حزبِ اختلاف مذکرات کی آڑ میں ’’این آر اُو‘‘ چاہتی ہے۔ان حالات میں حزبِ اختلاف کی تحریک بہرحال ان کے نکتۂ نظر سے ان کی ایک جائز مجبوری بن گئی۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع اکثر غیر جانب دار سیاسی مبصرین اور صحافی کر رے تھے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کا اس طرح سیاسی طور پر متحرک ہونا ان کا حق ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب حکومتی ایوانوں میں بھی سنجیدگی کا عنصر شروع ہوگیا۔ اب ان کو پارلیمنٹ اور مذکرات کی اہمیت پتا چل گئی ہے۔
یہاں پر ہم حزبِ اختلاف کو یہ مشورہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ احتجاج، جلسہ جلوس ان کا سیاسی اور جمہوری حق ہے، لیکن اس طرح لانگ مارچ اور دھرنوں سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کسی طور پر بھی مناسب نہیں، بلکہ اغلب امکان یہی ہے کہ اس طرزِ عمل سے کہیں مکمل نظام ہی نہ پلٹ دیا جائے، اور پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے۔ یوں آمریت کی وہ سیاہ رات شروع ہو جائے کہ جس کی صبح بہت تاخیر سے ہوتی ہے اور صبح کی کرن پھوٹنے تک آمریت کا بے رحم اندھیرا بہت زیادہ تباہی مچا چکا ہوتا ہے۔ اس کی کھوکھ سے کبھی ملک دو ٹکڑے ہو کر نکلتا ہے، کبھی بھٹو کی لاش اور کوڑے اور کبھی بگٹی کا قتل اور ملک لہو لہو ہو کر سیاسی انارکی اور سماجی گند کا وہ ریلا نکلتا ہے کہ جس کی صفائی واسطے پھر ہم کو عشروں تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔ سو میرا خیال ہے کہ حزبِ اختلاف کو اس انتہا پر نہیں جانا چاہیے۔ خاص کر استعفوں کا آپشن تو بالکل استعمال کیا کرنا بلکہ اس پر غور کرنا بھی حماقت ہوگی۔ اب تک کی موصولہ اطلاعات کے مطابق پی پی پی اور اے این پی جیسی نظریاتی اور تجربہ کار جماعتیں استعفا بارے کچھ تحفظات رکھتی ہیں، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ اس بارے راضی ہی نہیں، لیکن دوسری طرف مولانا فضل الرحمان اور محترمہ مریم نواز نہایت ہی شدید رویہ اپنائے ہوئے ہیں، اور ہر صورت استعفا دینا چاہتے ہیں۔ مَیں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ آصف زرداری صاحب کی سوچ بالکل معقول ہے۔ کیوں کہ استعفا دینا ہر صورت حزبِ اختلاف واسطے باعثِ نقصان ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ استعفا کے بعد کی صورتِ حال ان کی خواہش کے مطابق ہوگی، تو یہ محض خام خیالی ہے۔ ممکنہ طور پر اس کے دو نتائج نکل سکتے ہیں: ایک حکومت انتظامی طاقت سے سیاسی کنٹرول کرلے اور خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کروا کر اپنی پارلیمانی طاقت کو مزید طاقتور کر لے۔ دوسری صورت یہ بن سکتی ہے کہ حزبِ اختلاف ملک میں سیاسی بحران اور انارکی پیدا کر دے، اور اس کے نتیجہ میں پوری کی پوری بساط ہی الٹ دی جائے۔ اب ان دونوں صورتوں میں ملک کی سیاست کا بے انتہا نقصان ہوگا۔ اس کے اثرات براہِ راست ملک اور عوام پر منفی پڑ سکتے ہیں۔ اب یہ سوچنا پی ڈی ایم اور خاص کر مولانا فضل الرحمان اور مریم بی بی کا کام ہے کہ کیا وہ محض جذبات میں آکر اس انتہائی کام پر جا سکتے ہیں، یا پھر حالات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے دیکھ کر کوئی عقل مندانہ روش اختیار کرتے ہیں؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ زمینی حقائق کے مطابق پی پی کا نکتۂ نظر سمجھنے کے بجائے میڈیا میں سندھ کی حکومت کے حوالے سے زرداری پر سیاسی دباؤ بنایا جا رہا ہے۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ زرداری سندھ کی حکومت بچانے واسطے استعفوں سے گریز کر رہا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ زرداری یہ دباؤ زیادہ برداشت نہ کر پائے، اور پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر یہ انتہائی کام کر گزرے۔ لیکن اگر ذرداری صاحب استعفوں کے معاملہ پر ڈٹ جاتے ہیں، تو پھر پی ڈی ایم خود ہی دھڑام سے گر جائے گی اور نفسیاتی طور پر حکومت طاقتور ہو جائے گی۔
سو ان حالات میں ہم حزبِ اختلاف کو یہ مشورہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے قیادتی اجلاس میں اس بارے جذبات سے ہٹ کر سنجیدگی سے غور کرے اور ایسا لائحہ عمل تشکیل دے کہ جس میں استعفوں کا آپشن بالکل نہ ہو۔ یہاں دوسری طرف حکومت کو بھی سوچنا ہوگا۔ یہ جو تین سال سے پارلیمنٹ ہو یا وزیرِ اعظم ہاؤس، گورنر ہاؤس ہو یا مشیران ہر جگہ اب ڈی چوک بنا کر فضول قسم کے ریمارکس دینا بالکل غلط ہے۔ سو ان حالات میں جہاں ہم حزبِ اختلاف کو یہ مشورہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ احتجاج کو اس حد تک نہ لے جایا جائے کہ جہاں پورا نظام ہی تباہ ہو جائے، اور بساط اس طرح لپیٹ دی جائے کہ پھر سالوں کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے، وہاں حکومت کو بھی یہ تجویز ہے کہ وہ اب ڈی چوک کے کلچر سے باہر نکلے۔ غیر منتخب مشیران سے دور رہے۔ کیوں کہ ان مشیران کا کیا ہے، ان کے حالات تو حلوا کھانے والے بادشاہ کے ہیں کہ جب حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی، تو انہوں نے چادر کندھے پر رکھنی ہے اور زلفی لندن، شہباز گل امریکہ چلے جانا ہے اور بھگتنا تحریکِ انصاف نے ہے۔
حزبِ اختلاف واسطے بہتر لائحہ عمل ہے کہ وہ آصف ذرداری کہ جو مفاہمت اور حالات کی نزاکت کو سمجھنے والے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں، کی تجاویز کو اہمیت دیں اور خان صاحب بھی پرویز خٹک اور فواد چوہدری جیسے سیاسی دماغوں سے استفادہ کریں۔ دونوں فریق ایک میز پر بیٹھیں اور معمولات کو مذاکرات سے حل کرنے کی سعی کریں۔ اب جہاں اپوزیشن کو مناسب لچک لانی چاہیے، وہاں پر حکومت کو بھی اپوزیشن کے جائز معاملات کو مکمل عقل مندی سے دیکھنا ہوگا اور یہ جو انتقامی سیاست کا بظاہر ’’پرسپشن‘‘ بنا ہوا ہے اس کو دور کرنا ہوگا۔ احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو بلیک میل کرنے کا رویہ ختم کرنا ہوگا۔ یہی جمہوریت ہوتی ہے اور موجودہ دور میں جہاں بھی جمہوری نظام ہے، وہاں پر محض ووٹ کی پرچی سے حکومت کا حصول ہی مقصد نہیں ہوتا، بلکہ اس کا بنیادی مقصد دونوں فریقین کا مل جل کر عوام اور وطن کی فلاح و بہود ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم ماضی کے بے شمار تجربات سے اب تک بھی نہ سیکھ سکے اور وہی روش جاری رکھی جو ماضی میں تھی، تو آئے دن نظام کا الٹ پلٹ ہونا تو طے ہے، بلکہ ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ آج یہ حکومت کل دوسری حکومت۔ یہ تماشا جاری رہے گا اور عوام کی خوش حالی محض خواب ہی رہے گی۔ یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گی کہ اس طرح کے رویوں ہی سے عوام میں مایوسی بڑھتی ہے اور پھر عوام مکمل نظام پر ہی عدم اعتماد کر دیتے ہیں کہ جس کا فائدہ ہمارے ہوس پرست آمر بہت سکون سے اٹھا لیتے ہیں۔اس لیے ہم ایک بار پھر دونوں فریقین سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ عقل کا مظاہرہ کریں اور معاملات کو اس ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ تک نہ لے جائیں کہ جہاں سے واپسی ناممکن ہو، اور نتیجہ کے طور پر ان بلیوں کی طرح ہاتھ ملتے رہ جائیں جنہوں نے ذاتی لڑائی میں بندر کو تقسیم کنندہ بنایا تھا۔ جب ایسے حالات بن گئے، تو تب بھی تو آپ نے پھر میز پر بیٹھ کر جو حکمت عملیاں بنانی ہیں، تو بہتر نہیں کہ وہ کام ابھی سے کرلیں۔ تاکہ ملک میں سیاست بھی چلتی رہے اور نظام بھی چلتا رہے۔ تاکہ عوام کی کچھ نہ کچھ بہتری تو ہوتی رہے۔
وگرنہ اگر کل کو کوئی آمر آگیا، تو آپ سارے ہی ہاتھ ملتے رہیں گے اور ماسوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔