گلبدین حکمت یار تین دن تک اسلام آباد میں قیام کے بعد واپس کابل لوٹ گئے۔ جہاں وہ 20 برسوں کی جلاوطنی کے بعد گذشتہ تین سال سے مقیم ہیں۔ اسلام آباد کسی زمانہ میں حکمت یار کا ٹھکانہ نہیں دوسرا گھر تھا۔ آج بھی ان کی صاحبزادی اور درجنوں قریبی رشتہ دار او حلیف یہاں قیام پذیر ہیں۔ اسلام آباد میں قائم ’’فکر گاہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز‘‘ نے حکمت یار کے ساتھ ایک محدود نشست کا اہتمام کیا، جہاں ان کے کئی ایک پرانے دوست اور آشنا ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ خالد رحمان جو انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ہیں، نے ابتدائی کلمات میں نہایت ہی نپے تلے انداز میں افغان جہاد کے ان ماہ و سال کو یاد کیا، جب افغانیوں اور پاکستانیوں نے مشترکہ طور پر سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی ایک تاریخ رقم کی۔ خالد رحما ن کی گفتگو سنتے ہوئے ایسا لگا جیسے حکمت یار ماضی میں کھوگئے ہوں۔ان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ چغلی کھا رہی تھی کہ وہ دورۂ پاکستان سے مطمئن اور مسرور ہیں۔
اس نشست میں حکمت یار نے افغانستان کی داخلی سیاست اور مستقبل کے منظر نامہ پر تفصیلی گفتگو کی ۔ امریکہ کے افغانستان میں کردار اور ناکامیوں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی مؤثر اورنمائندہ حکومت فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ لہٰذا انہیں امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی صدارتی محل سے بھی انخلا کرناہوگا۔
انہوں نے ہمسایہ ممالک سمیت عالمی طاقتوں سے اپیل کی کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت بند کردیں۔ افغان داخلی مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 90ء کی خون آشام دہائی کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانوں کو ناکام اور نامراد کرنے کے لیے ایک عالمی سازش رچائی گئی، تاکہ مجاہدین کی کامیابی باقی دنیا کی مزاحمتی تحریکوں کے لیے نظیر نہ بن سکے۔ وہ اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ عالمی اداروں اور ہمسائیہ ممالک پر ڈالتے ہیں۔مستقبل میں ایک ایسا افغانستان دیکھنے چاہتے ہیں جو علاقائی تنازعات میں غیر جانب دار اور بیرونی مداخلت سے پاک ہو۔
حکمت یار کی گفتگو سے یہ احساس ہو رہا تھا کہ انہیں اس بات کی فکر نہیں کہ غیر افواج کے مکمل انخلا سے کابل ایک بار پھر انارکی کا شکا ر ہوجائے گا اور طالبان سمیت تمام گروہ اقتدار پر قبضہ کے لیے ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان اب خانہ جنگی کی طرف نہیں جائیں گے۔ کیوں کہ وہاں ایک مضبوط فوج موجود ہے، لیکن کون نہیں جانتا کہ افغانوں کو جنگ شروع کرنے کے لیے محض ایک بہانہ درکار ہوتا ہے۔ امریکی افواج کا انخلا ابھی شروع ہی نہیں ہوا کہ طالبان سمیت تمام افغان دھڑوں نے مختلف صوبوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوششیں شروع کررکھی ہیں۔
حکمت یار کی گفتگو سے یہ خدشہ گہرا ہوا کہ افغان دھڑے مستقبل کی صف بندی کر رہے ہیں اور وہ کابل کے صدارتی محل پر قبضہ کی دوڑ میں گذشتہ دو دہائیوں میں استوار ہونے والے جمہوری نظام اور ریاستی اداروں کے ڈھانچا کو مسمار کرسکتے ہیں۔
حکمت یار کے خطاب کا آخری حصہ مفاہمت کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کے عزم کا اظہار کرتاتھا۔ انہوں نے کہا کہ افغان اب ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ البتہ وہ نئے الیکشن یا عبوری نظام کے قیام پر زور دیتے رہے۔ طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کرنے کا بھی اعلان کرچکے ہیں۔ حکمت یار کی گفتگو سے یہ حقیقت عیاں تھی کہ وہ ابھی تک جہادی عہد کے سحر سے آزاد نہیں ہوئے اور اب بھی جنگ کی طرف لوٹ جانے کے امکانات پر غوروفکر کرتے ہیں۔ حالاں کہ ان کی عمر 71 برس سے تجاوز کرنے کو ہے۔
علاوہ ازیں طالبان اور امریکہ کے درمیان حالیہ معاہدہ اس امر کی دلیل ہے کہ جنگ، افغان مسئلہ کا حل نہیں۔ کوئی بھی فریق جنگ میں فاتح بن کر ابھرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
حکمت یار کو افغانستان کے کاروباری طبقات کے مسائل کے حوالے سے بھی کافی فکر مند پایا۔ انہوں نے بار بار شرکا کو متوجہ کیا کہ وہ پاکستان میں افغان کاروباری طبقے کو سہولتیں فراہم کرانے میں کردار ادا کریں۔ انہیں بینک کھاتے کھولنے کی اجازت دی جائے۔ ویزے کی فراہمی آسان کی جائے، تاکہ وہ ترکی یا دوبئی جاکر سرمایہ کاری کرنے کے بجائے پاکستان کا رُخ کریں، جہاں انہیں نسلی اور لسانی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
سکالر امارہ درانی کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ افغانوں نے بیس بلین ڈالر کے لگ بھگ بیرونی دنیا میں سرمایہ کاری کی ہے جس کا ایک بڑا حصہ پاکستان منتقل ہوسکتا ہے۔ اگر پاکستان افغان سرکایہ کاروں کو سہولتیں اور سازگار ماحول فراہم کرے ۔
یاد رہے کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کئی ماہ بلکہ کئی سال پر محیط ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ افغان سخت گیر سودہ بار ہیں اور جلدی سے اپنا مؤقف چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ امریکہ، پاکستان اور قطر کو اس ڈائیلاگ کی کامیابی کے لیے اپنی کوششوں کو تندہی سے جاری رکھنا ہوگا، تاہم پہلے مرحلے میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین جنگ بندی کا اعلان ہونا چاہیے، تاکہ بے گناہ افغانوں کی ہلاکتوں کے موجودہ اور تکلیف دہ سلسلہ کو روکا جاسکے۔ اسی خدشہ کے پیشِ نظر وزیراعظم عمران خان نے ایک امریکی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں امریکہ کو مشورہ دیا کہ اسے جلد بازی میں فوجی انخلا نہیں کرنا چاہیے۔ امن مذاکرات میں بے شک وقت لگ جائے، لیکن افغانستان کو ایک بار پھر جنگ کی طرف دھکیلنا دانشمندی نہ ہوگی۔
افغانستان کے امن سے خطے میں ترقی اور خوشحالی کے دروازے چوپٹ کھلیں گے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں غیرمعمولی تحمل اور حکمت برتنے کی ضرورت ہے۔ کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ کم ازکم ہدف یہ ہونا چاہیے کہ افغان گروہوں کے درمیان خانہ جنگی دوبارہ شروع نہ ہوجائے۔ امن اور استحکام کی کم ازکم موجودہ سطح برقراررہے۔
یہ امر خوش آئندہے کہ ایک مدت بعد تمام افغان رہنماؤں سے پاکستان کے خوش گوارتعلقات ہیں۔ پاکستان کو تمام افغان گروہوں اور جماعتوں کے ساتھ مفاہمت اور اشتراکِ عمل کی موجودہ فضا کو قائم رکھنے کی کوشش جارہی رکھنی چاہیے۔ اس طرح پاکستان کے تعمیری اثر و نفوذ میں نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی اضافہ ہوگا۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔