اسمبلیوں سے استعفا کے معاملے پر حزبِ اختلاف غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خود اعتمادی کی کمی اور کچھ مبینہ فروعی مقاصد بھی ہوسکتے ہیں۔
2018ء میں حزبِ اختلاف کی توقعات کے برخلاف انتخابی نتائج آنے پر قریباً ہر سیاسی و مذہبی جماعت نے اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا، یہاں تک کہ تحریکِ انصاف نے بھی کئی حلقوں میں انتخابی نتائج کو چیلنج کیا۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی غیر متوقع شکست کا سامنا ہوا جس کے بعد انہوں نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے اسمبلی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ فضل الرحمان کے اس مطالبے کو ان کی اتحادی جماعتوں نے سنجیدہ نہیں لیا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ’’ماضی کی روایات کے مطابق چھوٹی چھوٹی حکمراں اتحادی جماعتیں اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر پیچھے ہٹ جائیں گی، اور تحریکِ انصاف اپنی اکثریت کھو بیٹھے گی، جس کے بعد عوام میں پی ٹی آئی کے لیے اپنا دفاع کرنا مشکل ہوجائے گا۔‘‘ لیکن ملکی سیاست میں ایک ناقابلِ یقین صورتحال متعارف ہوئی کہ حکمراں جماعت سے اتحادی جماعتوں کی علاحدگی اور ناراضی کے باوجود بھی انہیں پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنے کے لیے کبھی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا۔ سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کوششوں کو ناکامی کا سامنا ہوا۔ بالخصوص سینیٹ میں اکثریت رکھنے کے باوجود حزبِ اختلاف اپنا چیئرمین لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کی جو بھی وجوہ ہوں، وہ مخفی نہیں کہ اس وقت حزبِ اختلاف میں موجود پی پی پی کاکردار ادا کیا تھا؟ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن)کے اپنے اراکین میں فاروڈ گروپس، قانون سازی کے مواقع پر حکومتی سہولت کار بنتے رہے، وہ بھی منکشف ہوچکا، اب یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں رہا۔
مولانا فضل الرحمان کو اب بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں پارلیمنٹ سے استعفا دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن حکومت پر دباؤ بڑھاکر مستعفی ہوں گے۔ اب یہ مولانا کے لیے غور کا مقام ہے کہ ان کے اتحادی، حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے کس قدر سنجیدہ تھے، اور مزید کس قدر سنجیدگی کا عملی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ منطقی طور پر اسمبلیوں سے استعفا دینے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ پی پی پی کبھی نہیں چاہے گی کہ سندھ کی حکومت تحلیل ہو، وفاق تو فوراً اس ’’سنہری موقع‘‘ کا فائدہ اٹھائے گا اور ضمنی الیکشن میں پی پی پی مخالف سیاسی قوت کے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ہاتھ سے نکلنے کے خدشے رہیں گے، تو دوسری جانب روایتی طور پر انتخابات میں حکومتی مشینری کو اپنے خلاف استعمال ہونے کے بھی تحفظات ہوں گے۔
پی پی پی سندھ سے کسی قیمت پر قبل از وقت انتخابات مستعفی ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں۔اسی طرح سینیٹ اور قومی اسمبلی سے حزبِ اختلاف کی جانب سے مستعفی ہونے کے امکان کے بعد پی ٹی آئی ضمنی انتخابات ہی کو ترجیح دے گی۔ اپوزیشن ان انتخابات میں کھڑی نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ وہ تو پہلے ہی استعفا دے کر اسمبلیوں سے باہر ہوئے ہیں۔ اس طرح موجودہ حکومت کو دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہوجائے گی، اور انہیں من پسند قانون سازی کرنے کے لیے کسی ’’بیرونی دباؤ‘‘کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ یہ واضح طور پر وہ ممکنہ امکانات ہیں جو حزبِ اختلاف کو استعفا دینے سے روک رہے ہیں۔ حزب اختلاف قطعی طور پر نہیں چاہ سکتی کہ موجودہ حکومت کوآئندہ انتخابات کے نگراں سیٹ اَپ اور اہم تقرریوں پر فری ہینڈ ملے۔ دوم اسمبلیوں سے استعفا دینے کے بعد ملک گیر تحریک چلانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے اس قسم کی تحریکوں کا ماضی میں بھی اچھا تجربہ نہیں۔
مولانا فضل الرحمان کی اہمیت کی سب سے بڑی وجہ، ان کے وہ سپورٹرز ہیں جو ایک کال پر کہیں بھی جانے اور کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ توقع تو یہی ظاہر کی جا رہی ہے کہ انہیں فرنٹ پر کھیلنے دیں گے۔ باالفاظ دیگر ان کا کندھا پھر استعمال کیا جائے۔ گو کہ پی پی پی، پی ایم ایل (ن) کا ملک گیر سطح پر سیاسی ڈھانچا موجود ہے، لیکن عوام کو احتجاجی تحریک کے لیے جذبات سے مغلوب کرکے متحرک کرنا آسان کام نہیں۔ دونوں جماعتوں میں فیصلہ سازی کا فقدان واضح ہے۔ صوبائی سطح سے علاقائی سطح تک محدود رہنے اور کارکنان کے ساتھ رابطہ مہم کی دوری کی وجہ سے انہیں مشکلات درپیش ہوسکتی ہیں۔ کیوں کہ دونوں جماعتوں میں نچلی سطح پر ابھی تک سیاسی ڈھانچا بھی مکمل نہیں کیا جاسکا اور اختلافات عروج پر ہونے کی وجہ سے عوام کو گھروں سے نکالنا خود بڑا چیلنج ہے۔
تحریک انصاف اسلام آباد میں طویل ترین دھرنا دیکھ کر سبق حاصل کرچکی کہ حکومت کو گرایا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح پاکستان عوامی تحریک نے سرد ترین موسم میں سخت احتجاجی دھرنے دیکھ کر تمام سیاسی جماعتوں کے لیے مثال قائم کردی کہ ریاست کی مرضی کے بغیر کسی حکومت کو دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ’’تحریکِ لبیک پاکستان‘‘ نے ایک مذہبی معاملے میں حکومت سے استعفا لینے کی کوشش کی، لیکن چشمِ فلک نظارہ کرچکی ہے کہ فیض آباد سمیت ملک گیر سطح پر کیے گئے دھرنے اور مظاہرے سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئے ۔ ان حالات میں ماضی کے تجربات یقینا نئے سیاسی اتحاد کے سامنے ہوں گے۔ کیوں کہ وہ خود بھی تجربات کے مرکزی کردار کے طور پر شامل رہے ہیں۔
اب لے دے کر موجودہ معروضی حالات میں حزبِ اختلاف کے پاس واحد راستہ پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیلی ہی رہ جاتا ہے۔ اس پر سنجیدہ طبقہ بھی متفق ہے کہ ’’اِن ہاؤس تبدیلی‘‘ کے آپشن کے علاوہ حزبِ اختلاف کے پاس موجودہ حکومت سے نجات پانے کا کوئی راستہ نہیں۔ گو کہ ان کے اپنے بیشتر اراکین، اس وقت اپنی سیاسی جماعتوں کا ساتھ نہیں دے رہے، تاہم ان حالات میں ان کامیابی کے امکانات بھی اُس وقت ہی روشن ہوسکتے ہیں جب غیر روایتی یا چھانگا مانگا والا ناپسندیدہ طریقہ اختیار کیا جائے، جس کی کامیابی کی گنجائش ہے بھی اور نہیں بھی۔
سیاسی پنڈتوں کی رائے میں حزبِ اختلاف کو کسی سیاسی ایڈونچر میں الجھنے کے بجائے پارلیمنٹ میں رہ کر مستقبل کے لیے ایسی قانون سازی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جہاں عوام کے ووٹ اپنے حقیقی نمائندوں کا انتخاب کرسکیں۔اپنی پارلیمانی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اپنے کارکنان و علاقائی سطح پر تنظیمی ڈھانچوں کو منظم کریں۔ کیوں کہ بڑی سیاسی جماعتوں کی نچلی و ضلعی سطح پر سیاسی تنظیم میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ دیگر تمام سیاسی جماعتیں اپنے رہنماؤں کے خلاف قانونی مقدمات سے باہر نکلنے کے لیے قانونی راستہ اپنائیں، تو یہ سب کے حق میں بہتر ہوگا۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔