محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو ’’عاشورہ‘‘ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’دسواں دن۔‘‘ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔ اس دن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے روزہ رکھا تھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا تھا۔
پہلے تو یہ روزہ واجب تھا پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے، تو مسلمانوں کو اختیار دے دیاگیا کہ چاہیں یہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں۔ البتہ اس کی فضیلت بیان کردی گئی کہ جو روزہ رکھے گا، اس کے سالِ گذشتہ کے چھوٹے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ پہلے یہ روزہ ایک دن رکھا جاتا تھا، لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لیے آخر میں حضورِ اکرمؐ نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا، تو ان شاء اللہ نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا، لیکن اس خواہش پر عمل کرنے سے قبل ہی آپؐ کا وصال ہوگیا۔
ہندوستان اور بر صغیر کے دیگر ممالک میں عاشورہ یعنی دسویں محرم الحرام اتوار 30 اگست 2020ء کو ہے۔ برصغیر میں جو حضرات عاشورہ کے نفلی روزے رکھنا چاہتے ہیں، تو وہ امسال 1442ہجری ہفتہ اور اتوار یا اتوار اور پیر کو رکھیں۔ صرف اتوار کو ایک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں عاشورہ یعنی دسویں محرم الحرام ہفتہ 29 اگست 2020ء کو ہے۔ خلیجی ممالک میں جو حضرات عاشورہ کے نفلی روزے رکھنا چاہتے ہیں، وہ امسال 1442 ہجری جمعہ اور ہفتہ یا ہفتہ اور اتوار کو رکھیں۔ صرف ہفتہ کو ایک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں۔ حضورِ اکرمؐ کی تعلیمات کے مطابق صحابۂ کرام بھی عاشورہ کے ان روزوں کا اہتمام فرماتے تھے۔
٭ عاشورہ کے روزہ سے متعلق چند احادیث:۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، اور عاشورہ کے دن بیت اللہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔ جب رمضان فرض ہوا، تو حضورِ اکرمؐ نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (بخاری)
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے، اور حضورِ اکرمؐ بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔ جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہاں بھی روزہ رکھا اور اس روزہ کا بھی حکم دیا۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشورہ (کے روزے کا حکم) چھوڑ دیا گیا، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ (بخاری)
حضرت رُبیع بنت مُعوِذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورِ اکرمؐ نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس نے صبح کو کھاپی لیا ہو، وہ بقیہ دن پورا کرے (یعنی رکا رہے) اور جس نے ابھی تک کھایا پیا نہیں ہے، وہ روزہ رکھے۔ فرماتی ہیں کہ وہ بھی یہ روزہ رکھتی تھیں، اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتی تھیں اور ان کے لیے اُون کا کھلونا بناتی تھیں۔ جب کو ئی بچہ کھانے لیے روتا، تویہ کھلونا اس کو دے دیتیں۔ یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوتا۔ (بخاری، مسلم)
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرمؐ نے عاشورہ کے دن ایک آدمی کو بھیجا جو لوگوں میں یہ اعلان کررہا تھا کہ جس نے کھالیا،وہ پورا کرے یا فرمایا بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے، اور جس نے نہیں کھایا وہ نہ کھائے ( یعنی روزہ رکھے)۔ (بخاری)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمؐ مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ یہودیوں نے کہا یہ اچھا دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کامیابی عطافرمائی۔ ہم اس دن کی تعظیم کے لیے روزہ رکھتے ہیں۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں، پھر آپؐ نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرمؐ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے، تو دیکھا کہ کچھ یہودی عاشورہ کی تعظیم کررہے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس کو عید بنارہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ہم اس روزہ کے زیادہ حق دار ہیں۔ پھر آپؐ نے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
(بخاری)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضورِ اکرمؐ کو کسی دن کے روزہ کا اہتمام اور قصد کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سوائے عاشورہ کا روزہ اور رمضان کے مہینے کا۔
(بخاری)
یعنی ان روزوں کا آپؐ بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حج کے لیے تشریف لائے، تو حضورِ اکرمؐ کے منبر پر عاشورہ کے دن (کھڑے ہوکر) فرمایا: ’’اے اہلِ مدینہ کہاں ہیں تمہارے علما؟ مَیں نے حضورِ اکرمؐ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ یہ عاشورہ کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا ہے۔ مَیں روزے سے ہوں، جو چاہے روزہ رکھے، جو چاہے روزہ نہ رکھے۔ (بخاری)
٭ عاشورہ کے روزہ کا ثواب:۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا، تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ (مسلم)
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ سالِ گذشتہ کے گناہ معاف فرما دیں گے۔ (ترمذی )
ان احادیث میں چھوٹے گناہ مراد ہیں، بڑے گناہ کے لیے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
٭ عاشورہ کے روزہ رکھنے کا طریقہ:۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرمؐ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہودونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو آپؐ نے فرمایاکہ اگر آئندہ سال زندہ رہا، تو اِن شاء اللہ نویں کو (بھی) روزہ رکھوں گا، لیکن آئندہ سال آپؐ کا وصال ہوگیا۔ (مسلم )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے روزہ رکھو یا ایک دن بعد۔ (مسند احمد )
یہ حدیث بعض نسخوں میں’’ او‘‘ کی جگہ پر ’’و او‘‘ کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ اگر واو (یعنی اور) کے ساتھ روایت ثابت مان لی جائے، تو پھر تین روزہ رکھنا ثابت ہوگا۔ اس طرح عاشورہ کے روزے رکھنے کی 4 شکلیں بنتی ہیں : 9, 10 اور 11 تینوں دن روزے رکھ لیں۔ 9 اور 10 دو دن روزہ رکھ لیں۔ 10 اور 11 دو دن روزہ رکھ لیں۔ اگر کسی وجہ سے 2 روزے نہیں رکھ سکتے، تو صرف ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھ لیں۔
٭ خلاصۂ کلام:۔ حضورِ اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا۔ آپؐ روزہ رکھتے، لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا، تو آپؐ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ 10 محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں، اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے ساتھ ہلکی سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا، تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ 9 یا 11 محرم الحرام کو رکھوں گا، تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔ لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے ہی حضورِ اکرمؐ کا وصال ہوگیا، اور آپؐ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ حضورِ اکرمؐ کے اس ارشاد کی روشنی میں صحابۂ کرام نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ 9 یا 11 محرم الحرام کا ایک روزہ ملاکر رکھنے کا اہتمام فرمایا اور اسی کو مستحب قرار دیا۔ صرف عاشورہ کاروزہ رکھنا خلافِ اولیٰ قرار دیا۔ یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لے، تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ اس کو عاشورہ کا ثواب ملے گا لیکن چوں کہ آپؐ کی خواہش دو روزے رکھنے کی تھی، اس لیے اس خواہش کی تکمیل میں بہتر یہی ہے کہ دو روزے رکھے جائیں۔
٭ وضاحت:۔ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ آپؐ کی وفات کے تقریباً 50 سال بعد 61 ہجری میں نواسہ ٔرسولؐ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس دن کی اہمیت ہوئی ہے۔ حالاں کہ اس دن کی فضیلت و اہمیت نبی اکرمؐ کے اقوال وعمل کی روشنی میں پہلے ہی سے ثابت ہے جیسا کہ نبی اکرمؐ کے اقوال وعمل کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔ ہاں، حضرت فاطمہؓ کے پیارے بیٹے اور جنت میں نوجوانوں کے سردار حضرت حسینؓ کی عظیم شہادت کے لئے اللہ نے اس بابرکت دن کا انتخاب کیا جس سے حضرت حسین کی قربانی کی مزید اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔