ضلع ملاکنڈ کے عوامی نیشنل پارٹی نے بٹ خیلہ کے پریس کلب میں بابڑہ کے شہدا کی یاد میں ایک جلسہ منعقد کیا، جس میں ملاکنڈ کے صحافیوں، شعرا، ادیبوں اور اے این پی کے ضلعی عہدہ داروں اور عام لوگوں نے شرکت کی، اور اس قیامت خیز دن کی یاد منائی جو چارسدہ کے گاؤں ’’بابڑہ‘‘ میں پُرامن اور بے گناہ لوگوں پر گزری تھی۔
اس سے پہلے کہ اے این پی کے پروگرام کا قصہ بیان کروں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس تاریخی واقعہ کی تھوڑی سی تفصیل ملاکنڈ کے ان لوگوں تک پہنچ جائے، جنہوں نے اس پروگرام میں کسی وجہ سے شرکت نہیں کی۔
’’بابڑہ‘‘ کے لرزہ خیز واقعہ کا جو پس منظرہے، وہ زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ یعنی ہر دور میں جمہوری قوتوں کو ریاستی جبر یا پیسوں کے لالچ سے کمزور کرنے کوشش کی جاتی رہی ہے۔ 1946ء کو برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کی نگرانی میں عام انتخابات منعقد ہوئے، اور یہ اعلان کیا گیا کہ جس صوبے میں جس سیاسی پارٹی نے اکثریت حاصل کی، اس صوبے میں اس سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کا اختیار ہوگا۔
این ڈبلیو ایف پی (موجودہ پختونخوا) میں پچاس نشستوں میں سے 33 نشستیں خدائی خدمتگاروں نے جیت کر واضح اکثریت حاصل کی۔ پختونخوا کی اسمبلی نے باچا خان کے بڑے بھائی خان عبدالجبار خان عرف ڈاکٹر خان صیب کو وزیراعلیٰ منتخب کیا اور اس طرح صوبے میں خدائی خدمتگار کی حکومت قائم ہوئی۔
چوں کہ انگریز بھی نہیں چاہتا تھا کہ ’’خدائی خدمتگار‘‘ کی حکومت اور عوام میں ان کی مقبولیت برقرار رہے۔ کیوں کہ ’’خدائی خدمتگار‘‘ کو انگریز روس کے نظریاتی دوست سمجھتے تھے۔ وہ کسی طریقے سے ان سے جان چھڑانا چاہتے تھے، لیکن بدنامی سے بچنے کے لیے اس غیر جمہوری کام کو مسلم لیگیوں کے ذریعے کروایا۔ 22 اگست 1947ء کو 1935ء کے ایکٹ میں ترمیم کرکے ’’خدائی خدمتگار‘‘ کی حکومت توڑ دی گئی۔ پھر اس ایکٹ میں دوسری ترمیم کرکے انگریز گورنر کی بجائے قیوم خان کو وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا۔ اس نے اپنی حکومت بنانے کے لیے ممبران کی تعداد کو پورا کرنے کے لیے وزارتوں اور پیسوں کا لالچ جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ جب اس سے کام نہ بن سکا، تو پکڑ دھکڑ اور ڈرانے دھمکانے کا ظالمانہ سلسلہ شروع کیا۔ باچا خان سمیت متعدد رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔
اپنے رہنماؤں کی رہائی کے لیے ’’خدائی خدمتگار تحریک‘‘ نے ایک پُرامن جلسے اور پھر ایک جلوس کا پروگرام بنایا۔ 12 اگست 1948ء کو چارسدہ کے گاؤں ’’بابڑہ‘‘ میں ایک حجرہ میں جلسہ کرنے کے بعد اعلان کیا گیا کہ ایک پُرامن جلوس نکالا جائے گا، اور غازی گل بابا مسجد میں نماز ادا کرکے پھر منتشر ہوجائیں گے۔
جلوس کے شرکا جب مسجد کے قریب پہنچے، تو گاؤں کے گھروں سے جلوس پرفائرنگ شروع ہوئی، اور جب یہ معصوم لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے مسجد کی طرف دوڑنے لگے، تو مسجد میں پہلے سے تاک میں بیٹھے پولیس والوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کی، اور تھوڑی دیر میں ’’بابڑہ‘‘ کے تمام گلی کوچے اور ملحقہ علاقہ پُرامن لوگوں کے خون سے سرخ ہوگیا۔
گھروں میں خواتین سے یہ صریح ظلم برداشت نہ ہوسکا، اور وہ سروں پر قرآن رکھ کر اس امید پر باہر نکلیں کہ اس سے مسلمان پولیس کے دلوں میں رحم پیدا ہوگا اور وہ فائرنگ بند کردیں گے، لیکن ان خون خوار درندوں نے خواتین کو بھی معاف نہیں کیا اور ان پر بھی فائرنگ کرکے پختونوں کی سرزمین پر پختون قوم کی روایات کو پامال کیا۔ اس طرح تقریباً سات سو کے قریب بے گناہ لوگ شہید ہو گئے۔
اس کے بعد گھروں کے اندر جا کر قیمتی سامان مثلاً زیور کی لوٹ مار شروع کی گئی۔ مجھے یہ بات لکھنے میں شرم آتی ہے کہ ایک دلہن سے اس کے زیب تن نئے کپڑوں کا مطالبہ کیا گیا اور اس نے کپڑے تبدیل کرکے لوٹ مار کرنے والوں کو دے دیے۔
یہ تھی بابڑہ کی کہانی۔
آمدم برسرِ مطلب، پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ صدارت کے فرائض اے این پی کے ضلعی صدر اعجاز خان نے ادا کیے۔ نظامت کے فرائض ندیم سحر اور علی محمد سحر نے انجام دیے۔ ملاکنڈ کی ادبی تنظیم ’’مل‘‘ کے بخت روان عمرخیل نے ایک خاص مہمان کی حیثیت سے پروگرام میں شرکت کی۔ اعجازخان، اے این پی تحصیل کے صدر جہان بادشاہ اور بایزی کے صدر شوکت خان عرف ’’لعل دا‘‘ نے اس تاریخی واقعہ میں پیش آنے والے مظالم اور پس منظر کا تفصیل سے ذکر کیا۔
اس کے بعد بخت روان عمرخیل نے ’’خدائی خدمتگار تحریک‘‘ اور ’’باچا خان کی جد و جہد‘‘ پر مختصر اور جامع بات کی، اور بحیثیت ایک شاعر اور ادیب اس تحریک کی تعلیم اور ادب کے لیے خدمات کوخوبصورت انداز میں بیان کیا۔
اس طرح پروفیسر اقبال شاکر نے تحریک کی ذیلی تنظیم ’’انجمن اصلاحی افاغنہ‘‘ کے تنظیمی امور اور کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ اپنے ایک تخلیقی مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تنظیم جدید اصلاحی اور سیاسی تنظیموں سے زیادہ مؤثر تھی، اور کارگردگی کے لحاظ سے بھی عصرِحاضر کی تمام تنظیموں سے بہتر تھی۔
ملاکنڈ کے فنکاروں اور شعرا نے اس پروگرام میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے اس دن کی مناسبت سے نغمے اور نظمیں پیش کیں۔
ملاکنڈ کے نئے اُبھرتے ہوئے فنکار لعل بادشاہ نے اقبال جان مرحوم کی لکھی ہوئی نظم اپنے دل لبھانے والی آواز اور ایک منفرد عوامی سٹائل میں گائی۔
اس کے علاوہ ملاکنڈ کے ممتاز شعرا گوہر علی گوہرؔ، علی محمد سحرؔ، علی اکبر ملاکنڈ، سید رسول رساؔ، ناموس خان ناموسؔ، سید رحمان پروانہؔ، حافظ جنونؔ، روح الامین روحیلؔ، محاذ اللہ محاذؔ، ارشد کریم شلمانی، نور رحیم شال دا، ناصر امینؔ اور حضرت خان راہیؔ نے اپنی نظموں کے ذریعے ’’بابڑہ کے شہدا‘‘ کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
ملاکنڈ میں ’’عوامی نیشنل پارٹی‘‘ کا بابڑہ کے شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرنا ایک احسن اقدام ہے۔ یہ دن اے این پی کو اُنیس سو اننچاس سے لے کر اب تک باقاعدگی کے ساتھ منانا چاہیے تھا، لیکن ’’دیر آید درست آید۔‘‘
اس سال اے این پی نے جس روایت کا آغاز کیا، اس کو منظم طریقے سے ہر سال جاری رکھنا چاہیے۔ پریس کلب کے بجائے ایک کھلے میدان میں عوامی سطح پر ’’بابڑہ کے شہدا‘‘ کی قربانیوں کو یاد کرنا چاہیے، تاکہ اے این پی ملاکنڈ اپنا 72 سالہ قرض اتارسکے اور ملاکنڈ کے تمام پختون یہ جان سکیں کہ جمہوری حقوق کے لیے ’’خدائی خدمتگار تحریک‘‘ نے جو لازوال قربانی دی تھی، اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔
یہ صرف اے این پی، شعرا اور فنکاروں کا فرض نہیں ہے کہ وہ پختون قوم کے شہدا کو یاد کریں، اور ان کی بے دردی سے قتل عام پر ماتم کریں، تقاریر کریں، نغمے گائیں اور انہیں منظوم خراجِ عقیدت پیش کریں۔
یہ پختون قوم کے تمام مرد اور خواتین کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس دن کے پس منظر کو جانیں اور اس کوعقیدت اور احترام سے منائیں۔ یہ پختونوں کا پاکستان میں جمہوری حقوق اور عوام کی رائے کو بحال کرنے کے لیے سب سے بڑی قربانی تھی اور ابھی تک ہے۔ اس دن کو ملاکنڈ کے عظیم شاعر اور ادیب ’’صاحب شاہ صابر‘‘ (مرحوم) نے پختونوں کے کربلا سے تعبیر کیا ہے۔
تہ راتہ اووایہ چی سہ پہ کربلا کی شوی
ما پہ ٹکر او پہ بابڑہ تبصرہ راوڑے
اس اہم اور الم ناک سانحہ کو پُرامن جلسوں، ڈراموں، خاکوں، مضامین، فلموں اور نغموں کے ذریعے اُجاگر کرنا چاہیے، تاکہ دنیا کو پشتونوں کی حق پرستی اور ان کے پُرامن رویوں کی سمجھ آجائے۔ کیوں کہ اس واقعہ پر اُس وقت کے پختون رہنماؤں نے جواباً تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا، بلکہ پُرامن طریقوں سے اپنا احتجاج جاری رکھا تھا۔
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔