ماضی کی باتوں کو یاد کرنا، ماضی میں زندہ رہنا، ماضی کو حال سے بہتر سمجھنا ’’ناسٹلجیا‘‘ کہلاتا ہے۔ انتظار حسین کے افسانوں میں اس قسم کی صورتحال زیادہ نظر آتی ہے۔
پچھلی باتوں، گزرے دور کو شعور کا حصہ بنانے اور بکھرتے سانچوں کو منظم کرنے کی حسرتِ تعمیر ’’ناسٹلجیا‘‘ ہے۔ جو لوگ پرانی طرز پر لکھ رہے ہیں، بے شک وہ آج کے دور میں پیدا ہوئے، مگر ان کے لیے نئی آگہی ممکن نہیں۔ اس تنقید کے سائے میں پلنے والے اسے ’’ناسٹلجی‘‘ کہتے ہیں۔
بقولِ انتظار حسین : ’’مَیں اسے اقبال کی زبان میں آتشِ رفتہ کا سراغ کہوں گا۔‘‘
(ڈاکٹر محمد اشرف کمال کی تالیف ’’تنقیدی نظریات اور اصطلاحات‘‘ کے صفحہ نمبر 190 سے انتخاب)