28 جولائی 1969ء کو ریاستِ سوات کے پاکستان میں ادغام کا اعلان ہوا۔
ڈاکٹر سلطانِ روم کی کتاب ’’ریاستِ سوات 1915 تا 1969ء‘‘ (Swat State) کے مطابق 1915ء کو ریاستِ سوات کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 239 پر والی صاحب (میاں گل عبدالحق جہانزیب کے حوالہ سے رقم ہے: ’’جب ریاست کے ادغام کا فیصلہ ہوگیا تو میاں گل اورنگ زیب اور نوابِ دیر کو راولپنڈی بلا کر انہیں ادغام کے بارے میں پیغام دیا گیا…… یہ (25 جولائی اور) جمعہ کا دن تھا، جب کہ آئندہ پیر کے دن 28 جولائی 1969ء کو ریاست کا ادغام ہوا۔‘‘
اسی کتاب کے صفحہ نمبر 242 پر رقم ہے: ’’مزہ کی بات یہ ہے کہ ریگولیشن I آف 1969ء کو (جس کے تحت چترال، دیر اور سوات کے حکمرانوں سے ان کے اختیارات لیے گئے) بالعموم ضابطہ ادغام کہا جاتا ہے، لیکن نہ تو اسے اس قسم کا عنوان دیا گیا ہے اور نہ ہی اس میں ان تین ریاستوں کے ادغام کی بات کی گئی ہے۔ اس کا عنوان ہے چترال، دیر سوات (انتظام) ضابطہ 1969ء۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک ضابطہ قانون ہے جس کے تحت ان قبائلی علاقوں کی انتظامیہ میں تبدیلیاں کر دی گئی ہیں جو سابقہ ریاستوں چترال، دیر اور سوات پر مشتمل تھا۔ تاہم اس ضابطہ کے شق 3 میں مذکورہ ریاستوں کے حکمرانوں کے اختیارات کے استعمال اور انتظامی امور کی انجام دہی کے خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ اور ان ریاستوں کی دیر، سوات اور چترال کے سابقہ ریاستوں کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس ضابطہ کے تحت ریاستِ سوات 15 اگست 1969ء کو باقاعدہ طور پر ختم ہوگئی۔’’
1915ء سے پہلے والے دور کو ’’پختو دور‘‘ کہتے ہیں۔ 1947ء میں ریاستِ سوات کے بادشاہ میاں گل عبدالودود المعروف بادشاہ صاحب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔ ریاستی دور کے بڑے بوڑھوں کا ماننا ہے کہ ادغام کے بعد ایک طرح سے سوات کا زوال شروع ہوا۔ ایک دور ایسا تھا کہ ریاستِ سوات ہر لحاظ سے ایک مثالی ریاست شمار کی جاتی تھی۔ یہاں کے جنگلات، زمرد، دریا کا پانی سب ایک طرح سے یہاں کا اثاثہ تھے، جسے ادغام کے بعد بے دردی سے بے جا استعمال کیا گیا۔