چند روز قبل پشتون وطن کے پہاڑوں میں قدرتی طور پر اگنے والے پھل ’’گرگرے‘‘ کے بارے میں لکھا۔ آج ’’دنداسہ‘‘ کے بارے میں لکھنے کا خیال آیا۔ گُرگُرے ہوں یا دنداسہ، دونوں کا تعلق پشتون وطن سے ہے۔ دونوں پشتون وطن کا خاصا ہیں۔
دنداسہ دراصل اخروٹ کے خشک چھلکا ہے، جو ذائقے میں تلخ ہوتا ہے اور اس کا عام استعمال دانتوں کی صفائی اور ہونٹوں کو سرخ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ زمانۂ قدیم سے دنداسہ مشرقی خواتین ’’لپ اسٹک‘‘ کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں۔ دنیا میں دنداسہ کہاں کہاں استعمال ہوتا ہے، اور کہاں کہاں اخروٹ کے درخت ہیں؟ یہ نہیں معلوم، لیکن برصغیر پاک و ہند میں دنداسہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات باجوڑ، تیراہ، وزیرستان ،پاڑہ چنار وغیرہ کے اخروٹ کے جنگلات سے حاصل کیا جاتا ہے، اور پورے برصغیر میں سپلائی کیا جاتا ہے۔
جس طرح پشتو ادب اور رومانوی شاعری میں گرگرے کا ذکر بکثرت موجود ہے، اسی طرح دنداسہ کا ذکر بھی پشتون قلم نگاروں اور شاعروں نے کثرت سے کیا ہے۔
سترگے دے توری پہ رنجو کہ
شونڈو تہ رنگ دا دنداسے ورکہ میئنہ
اُردو میں ایک مشہور گیت دنداسہ کے بارے میں گایا گیا ہے، جس کے بول کچھ یوں ہیں: ’’پشاور سے میرے لیے دنداسہ لانا،اُو دلبر جانہ!‘‘
زمانۂ قدیم سے آج تک دنداسہ کا مسلسل استعمال جاری ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں آباد خواتین زمانۂ قدیم سے دنداسہ دانتوں کی صفائی اور میک اَپ کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں۔ اگرچہ حالیہ سالوں میں اس کا استعمال کم ہو گیا ہے۔
زمین پر چادریں بچھا کر دنداسہ بیچنے والے ایک عمر رسیدہ شخص سے پرسوں بنوں چوک بازار میں دنداسہ کے استعمال کے بارے میں پوچھا، تو ان کا جواب تھا کہ وقت کے ساتھ دنداسہ کے خریداروں میں کمی آ رہی ہے۔
یہی سوال پشاور صدر میں ایک دنداسہ فروش سے کیا، تو ان کا بھی یہی جواب تھا۔ وقت کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جہاں جدید خواتین میں شادی بیاہ کے موقع پر پشتون اتنڑ اور ٹپے گانے کا رواج دم توڑ گیا ہے، وہاں ’’میک اپ‘‘ کے لیے دنداسے کا استعمال بھی معدوم یا کم ہوگیا ہے۔ چوں کہ دنداسہ اخروٹ جیسے نایاب درختوں کے چھلکے سے حاصل کیا جاتا ہے، جس سے پودا مر جاتا ہے۔ اس لیے حکومت نے اس پر پابندی لگائی ہے۔ پھر بھی یہ ہر وقت کم قیمت پر مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کے خریدار کم ضرور ہوئے ہیں، مگر ابھی ختم نہیں ہوئے۔
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ دنداسے کا استعمال صرف دانتوں کی صفائی یا ہونٹ لال کرنے کے لیے ہوتا ہے، لیکن اس کے دیگر بھی استعمال ہیں۔ آئیے، دیکھتے ہیں دنداسہ کا استعمال کن چیزوں میں ہوتا ہے۔
٭ ہونٹوں کی سرخی کے طور پر:۔ دنداسے کے اندر یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ جب وہ گیلا ہوتا ہے، تو اس کی رنگت سرخی مائل ہو جاتی ہے، اور اس کا یہ رنگ ہر اس چیز کو سرخ کر دیتا ہے، جس کے ساتھ یہ مس ہوتا ہے۔ اس لیے خواتین اس کو جب دانتوں کی صفائی کے لیے استعمال کرتی ہیں، تو ان کے ہونٹ اس سے مستقل طور پر سرخ ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ رنگ مصنوعی لپ اسٹک کے مقابلے میں نہ صرف دیر پا ہوتا ہے، بلکہ اس کے مضر اثرات بھی نہیں ہوتے۔
٭ ہاتھوں اور پیروں کو خوشنما بنانے کے لیے:۔ ویسے تو خواتین ہاتھوں پیروں کے لیے مہندی کا استعمال کرتی ہیں، مگر پٹھان خواتین مہندی کی جگہ دنداسے کا استعمال بھی کرتی ہیں۔ اس کے لیے رات میں دنداسے کو پانی میں بھگو کر رکھ لیا جاتا ہے، اور اس کے بعد مہندی کو جب ہاتھوں اور پیروں پر لگایا جاتا ہے، تو اس کا سرخ رنگ ہاتھوں اور پیروں کو مہندی کی طرح ہی سرخ کر دیتے ہیں، جو کہ ایک سہاگن کی نشانی تصور کی جاتی ہے۔
٭ نیل پالش کے طور پر:۔ دنداسے کا استعمال خواتین نیل پالش کے طور پر بھی کرتی ہیں۔ اس کے لیے وہ دنداسے کو رات بھر بھگو کر رکھتی ہیں۔ اس کا سرخ رنگ ناخنوں پر آجاتا ہے، اور نیل پالش کی طرح ہی نظر آتا ہے، مگر اس کی خاص بات یہ ہے کہ نیل پالش کی موجودگی میں تو عورت نماز نہیں پڑھ سکتی ہے، مگر دنداسے کے رنگ کے سبب ناخنوں پر ایک تہہ نہیں چڑھتی ہے، اس لیے اس سے وضو پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
٭ کپڑوں کی رنگائی کے لیے :۔ خواتین اپنے بے رنگ دوپٹوں کی رنگائی کے لیے بھی دنداسے کے پانی کا استعمال کرتی ہیں، جس سے ان کے سفید کپڑے اور خصوصاً دوپٹے سرخ رنگ میں گھر بیٹھے رنگے جا سکتے ہیں۔
٭ دانتوں کی صفائی کے لیے :۔ دنداسہ مسواک کی طرح خواتین دانتوں کی صفائی کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف دانتوں پر سے داغ دھبے دور ہوتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مسوڑھے بھی مضبوط ہوا کرتے ہیں۔
فیشن اور نمود نمائش کے بہاؤ میں قدیم روایات و اقدار تیزی کے ساتھ خس و خاشاک کی طرح بہتی چلی جا رہی ہیں۔ کسی کو اس کا احساس تک نہیں۔ قدیم روایات جس کی بنیاد خلوص و سادگی پر رکھی گئی تھی، آج کے اس مشینی دور میں معدوم ہونے جا رہی ہیں۔ اس کا نقصان خود جدید دور کے انسان ہی کو ہوگا۔ جس طرح سہولتیں پید اکی جا رہی ہیں، اسی قدر پیچیدگیاں بھی آتی جا رہی ہیں۔ آج سے پچاس سال قبل کے انسانوں کے پاس اتنی سہولتیں نہیں تھیں، لیکن وہ صحت منداور پرسکون تھے۔ جس طرح ’’گودر‘‘ ختم ہوا، اور پشتون شاعر ’’گودر‘‘ کی ’’موت‘‘ کا ماتم کر رہے ہیں، شائد کچھ سالوں بعد ہم دنداسہ اور گرگرے سے جُڑی یادوں کو بھی یاد کرکے نوحہ کناں ہوں گے۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔