پروفیسر محمد نعیم گھمن ہمارے لاہور کے پی ایچ ڈی سکالر دوست ہیں۔ فیس بک ہی پر ان سے دوستی کی پینگیں بڑھیں، اور ایسے ’’ہوٹے ہلارے‘‘ بھرے کہ جیسے قوسِ قزح کے ست رنگی رنگ مل کر یک رنگ ہوجائیں۔ گھمن دوسروں کا نین نقشہ تو خوب کھینچتے ہیں، لیکن اُن کے اپنے انگ کا رنگ خالص پنجابی مٹی میں گندھا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھری بھری گرانڈیل جوانی، سرخی مائل سانولا گندمی رنگ، بڑی بڑی غلافی آنکھیں، سرخ عنابی ہونٹ، ابھرے ہوئے بھرے بھرے گال، کشادہ پیشانی، ستواں ناک، موزوں دہانہ، گفتگو میں دریا کی سی روانی، یہ خوش گفتار، ملنسار اور یاروں کے یار، چہرے پہ ہلکی سی داڑھی بھی رکھتے ہیں۔ داڑھی کیا ہے، داڑھی کی معذرت ہے۔
میرا اُن سے دوستی کا دورانیہ بہت کم ہے۔ وہ مجھے کبھی کبھی فون بھی کرتے ہیں، جس میں اُن کا جاٹوں ایسا دیہاتی لہجہ اُن کی البیلی اردو میں گھل کر اِک نیا رنگ اور آہنگ پیدا کرتا ہے۔ جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے، وہ اِک ملنگ اور درویش صفت انسان ہیں اور یہ درویشی اُنہیں اپنے بزرگوں سے ملی ہے۔
یہ ہلکی سی سراپا نگاری مَیں نے اس لیے کی کہ آج میں گھمن جی کی خاکہ نگاری ہی کی کتاب ’’کچھ رنگ چرائے ہیں‘‘ پہ کچھ خامہ فرسائی کا ارادہ رکھتا ہوں۔ 358 صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت کتاب اپنے جاذبِ نظر گیٹ اَپ سے پہلی ہی نظر میں قاری کو متاثر کردیتی ہے۔ ٹائٹل پہ امیجری رنگوں کا امتزاج موجود ہے، تو پشت پر جے سی یونیورسٹی کے استاد الاستاد ڈاکٹر تبسم کاشمیری اپنی خنداں و فرحاں تحریر کے ساتھ موجود ہیں۔ وہ اپنے شاگرد کے متعلق یوں لکھتے ہیں: ’’اس عمر میں نوجواں عشق کیا کرتے ہیں۔ غلطی اس کی یہ ہے کہ کوچۂ محبوب میں خاک ہونے کی جگہ وہ کوچۂ تحقیق میں مقیم ہوگیا ہے۔‘‘
اندرونی صفحات میں ڈاکٹر اشفاق ورک لکھتے ہیں کہ ’’نعیم گھمن کی ہمت ہے کہ اُس نے دوستوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ پہ بھی قلم اُٹھایا ہے۔ حالاں کہ کسی استاد کا خاکہ لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ کیوں کہ جتنی دیر میں ایک استاد کا خاکہ مکمل ہوتا ہے۔ اتنی دیر میں دس استانیوں کے خاکے لکھے جاسکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر لیاقت علی فرماتے ہیں کہ ’’گھمن محبتوں کے شیرے میں انسان کو یوں ڈبو دے گا کہ آپ کو اس کا منھ اور قلم دونوں پہ ہاتھ رکھنا پڑجائے گا۔‘‘
جبکہ شالیمار کالج میں گھمن کے ہمکار رفیق پروفیسر اکرام نے اپنے ساتھی کی فنکارانہ اُپچ اور طنز و مزاح میں ملفوف ان کی شگفتگی پر حاشیہ کھینچتے ہوئے حق دوستی ادا کیا ہے۔
کتاب کا پہلا خاکہ ’’قلندر‘‘ ہے، جس میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی قلندرانہ مزاجی کی پرت در پرت جہتیں قاری کے سامنے وا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس سے اگلا خاکہ ’’سائیں‘‘ ہے، جس میں اُن کے نانا کی درویشی کے قصے درج ہیں۔ اُن کی موت پہ اُن کا جگری یار بابا صدیق فوجی کا گریہ قاری کو رُلاہی ڈالتا ہے، جب وہ کہتا ہے: ’’یار، تم مجھے اکیلے چھوڑ گئے ہو۔ تم بن مجھ سے رہا نہیں جا رہا۔ میں تیرے پاس آرہا ہوں اور سات دِن بعد حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے فوت ہوگیا۔‘‘ ہائے، کیسے کیسے یار گذرے ہیں۔ اگلے تین خاکے اساتذہ کی محبتوں میں گندھے قصیدے ہیں۔ پھر باباجی اور اماں جان کی باری آتی ہے۔ ان شاہکار خاکوں میں ان کی درویشی، قربانیوں اور محبتوں کی داستایں موجود ہیں۔ آپ کے قلم کا توتی ’’خوش پوش دیوی‘‘ میں خوب ٹائیں ٹائیں کرتا ہے۔ جب آپ محبت اور عقیدے کی سرشاری میں اپنی استانی میڈم روبینہ رفیق کا خاکہ لکھتے ہیں اور سچ بھی یہی ہے کہ آپ کے قلم کی جولانیاں ادب پروروں کا خوب خوب احاطہ کرتی ہیں۔
’’محسن حاصلپور‘‘ ڈاکٹر سعیدہ ریاض کا شخصی خاکہ ہے، جنہوں نے انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرکے کسی جامعہ کی بجائے چھوٹے سے شہر میں متمکن ہوکر عمرِ رفتہ کے 30 سال گذار دیے۔ ان تیس سالوں میں انہوں نے ادارے کو انٹر، ڈگری اور پھر پوسٹ گریجویٹ کالج تک پہنچایا۔ بڑی بڑی بلڈنگ بنوائیں لیکن اپنے دفتر میں اے سی تک نہیں لگایا۔ بلکہ تنخواہ کا بیشتر حصہ غریب بچیوں کی تعلیم اور ان کی شادیوں ہی پر صرف کرتی رہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ پہ اُن کے رفقا اور ما تحتوں کے دو آنسو ہی ان کا ایوارڈ، انعام اور سرمایہ تھے۔
’’جادوگر‘‘ نامی سدا بہار خاکہ لکھ کر گھمن نے نہ صرف اپنے استادِ مکرم کو زندہ جاوید کردیا بلکہ یہاں اُنہوں نے اپنی نثر کی بھرپور جادوگری بھی دکھا ڈالی۔ لکھتے ہیں: ’’چہرے باطن کے عکاس ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر لیاقت علی صاحب کا چہرہ حسین پاکیزگی کا مظہر ہے۔ ہم ان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی کوئی عاشق، غزال آنکھوں والی محبوبہ سے کرتا ہے۔‘‘ یہ خاکہ پڑھنے کے بعد میرا بھی جی چاہا کہ سوات سے اُڑوں اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جاکر ایم فل میں داخلہ لے کر ڈاکٹر لیاقت کے چرنوں میں جا بیٹھوں۔
کتاب ہذا کے بیشتر خاکے آپ کے اساتذہ کی محبتوں کا طواف کرتے ہیں، تو بقیہ خاکے آپ کے ملنگ دوستوں کی محبتوں کے دلداریے ہیں۔ ان ممدوحین میں کوئی بھی نامی گرامی ادیب یا شاعر نہیں۔ آپ نے عام اور غیر معروف دوستوں کو محبت کی گھمن گھیری میں گھیر کر امر کر دیا ہے۔ کسی کو لجپال کہا، تو کسی کو قلندر، کسی کو درویش کہا، تو کسی کو ملنگ، کسی کو فوجی کہا، تو کسی کو سادھو، کسی کو بابو کہا، تو کسی کو حاتم طائی، کسی کو شاہین کہا، تو کسی کو کم گو، کسی کو پروفیسر کہا، تو کسی کو لاپروا منڈا، کسی کو پُرکشش کہا، تو کسی کو نفیس، کسی کو دانشور کہا، تو کسی کو عاشق، الغرض ہر بندے کے ساتھ آپ نے پورا پورا انصاف کیا ہے۔
آپ نے رِند، مے خانے اور جام وسبو کی کنایاتی ترکیبات کا بھر پور استعمال کیا ہے، جو آپ کے اندر کی درویشی اور ملنگی کا مظہر دکھائی دیتی ہیں۔ یوں تو سبھی خاکے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن قلندر سمیت، اماں جان، جمیل اور گوندل پہ لکھے گئے خاکے میرے پسندیدہ خاکوں میں شمار ہوتے ہیں۔
یوں تو آپ نے سلیس، سادہ اور رواں نثر لکھی ہے جو آپ کے منفرد اسلوب کی پہچان ہے، لیکن کہیں کہیں آپ نے محمد حسین آزاد کی طرح شیریں، شستہ اور شگفتہ نثر لکھ کر کمال کردکھایا ہے۔ آپ کی نثر میں مِزاح کے بھرپور تڑکے بھی موجود ہیں مثلاً ڈھلتی عمر کے ایک ہمکار پروفیسر کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’عمران تبسم کو اِک چھوٹی سی شادی کرلینی چاہیے۔ تاکہ اُس کا شباب ترو تازہ رہے۔‘‘ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’ ناصر کھوکھر فرقۂ طعامیہ کا سرخیل ہے۔‘‘ یہ اور اسی طرح کے کئی جملے ہر خاکے میں جابہ جا موجود ہیں۔
اک بات جو مَیں نے نوٹ کی وہ یہ کہ گھمن نے قریباً ہر خاکے میں کھابوں، کھانوں اور دسترخوانوں کا ذکر ضرور کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ آپ خود بھی ’’فرقۂ طعامیہ‘‘ کے سرگرم رکن ہیں۔ آپ نے 43 خاکوں میں ہر شخص کا جیتا جاگتا لفظی پتلا قاری کے سامنے رکھ کر حقِ دوستی ادا کردیا ہے۔ میرے خیال میں فنِ خاکہ نگاری میں یہ ایک خوشگوار اضافہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ دھنک مطبوعات لاہور سے چھپنے والی یہ خوبصورت کتاب 03218888852 پر 500 روپے کے عوض منگوائی جاسکتی ہے۔ یقینا آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔