صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام روزہ نہیں

  لاک ڈاؤن کی وجہ سے ماہِ رمضان میں بھی ہماری مساجد نمازیوں سے خالی ہیں، مگر دنیاوی مصروفیات کی کمی کے باعث ہم گھروں میں رہ کر بھی اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے اپنے خالق کو راضی کرسکتے ہیں۔ رمضان کی سب سے اہم عبادت روزہ رکھنا ہے۔ لہٰذا کسی شرعی عذر کے بغیر ہرگز روزہ نہ چھوڑیں۔ ہمارے نبی اکرمؐ نہ صرف ماہِ رمضان کے روزوں کا اہتمام فرماتے تھے، بلکہ آپؐ رمضان کے علاوہ بھی کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ کیوں کہ روزے کے بے شمار فوائد ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ماہِ مبارک میں ہمارے اندر تبدیلی یعنی نیکیوں کی طرف رجحان اور برائیوں سے دوری پیدا ہوتی ہے اور اسی تبدیلی کو رمضان کے بعد بھی باقی رکھنا ضروری ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں بجز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ (ابن ماجہ، نسائی)
معلوم ہوا کہ صرف بھوکا پیاسا رہنا روزے کے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں۔ آئیے، قرآن وحدیث کی روشنی میں روزے کے چند بنیادی مقاصد کو سمجھیں، تاکہ اُن مقاصد کو سامنے رکھ کر ماہِ رمضان کے روزے رکھے جائیں۔
٭ تقوی:۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورۃ البقرہ 183)
قرآنِ کریم کے اس اعلان کے مطابق روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد لوگوں کی زندگی میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف و رجا کے ساتھ حضورِ اکرمؐ کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ روزہ سے خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے، اور یہی تقویٰ یعنی اللہ کے خوف کی بنیاد ہے۔ روزہ کے ذریعہ ہم عبادات، معاملات، اخلاقیات اور معاشرت غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے خالق، مالک ورازقِ کائنات کے حکم کے مطابق زندگی گذارنے والے بن سکتے ہیں۔ اگر ہم روزہ کے اس اہم مقصد کو سمجھیں اور جو قوت اور طاقت روزہ دیتا ہے، اس کو لینے کے لیے تیار ہوں اور روزہ کی مدد سے اپنے اندر خوفِ خدا اور اطاعتِ امر کی صفت کو نشو و نما دینے کی کوشش کریں، تو ماہِ رمضان ہم میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتا ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں، بلکہ اس کے بعد بھی گیارہ مہینوں میں زندگی کی شاہراہ پر خاردار جھاڑیوں سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے چل سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزہ کے اس اہم مقصد کو اپنی زندگی میں لانے والا بنائے، آمین!
٭ گناہوں سے مغفرت:۔ حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے یعنی خالصتاً اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے روزہ رکھا، اس کے گذشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف فرما دیے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
اسی طرح حضورِ اکرمؐ کا فرمان ہے، جو ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے یعنی ریا، شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے رات میں اللہ کی عبادت کے لیے کھڑا ہوا، یعنی نمازِ تراویح اور تہجد پڑھی، تو اس کے گذشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
اسی طرح حضورِ اکرمؐ کا فرمان ہے، جو شحض شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہوا، یعنی نمازِ تراویح و تہجد پڑھی، قرآن کی تلاوت فرمائی، اور اللہ کا ذکر کیا، تو اس کے گذشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
ایک مرتبہ حضورِ اکرمؐ نے صحابۂ کرام سے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ۔ صحابۂ کرام قریب ہوگئے۔ جب حضور اکرمؐ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا، تو فرمایا: آمین ! جب دوسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا، تو فرمایا: آمین! جب تیسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا، تو فرمایا: آمین! جب آپؐ خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اترے، تو صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے۔ جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا، تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینا پایا، پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی۔ مَیں نے کہا: آمین! پھر جب دوسرے درجہ پر چڑھا، تو انہوں نے کہا، ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپؐ کا ذکرِ مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے۔ مَیں نے کہا: آمین! جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا، تو انہوں نے کہا، ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کراسکیں۔ مَیں نے کہا: آمین! (بخاری، صحیح ابن حبان، مسند حاکم، ترمذی، بیہقی)
غرض یہ کہ کس قدر فکر اور افسوس کی بات ہے کہ ماہِ مبارک کے قیمتی اوقات بھی غفلت اور معاصی میں گزار دیے جائیں، جس سے سابقہ گناہوں کی مغفرت بھی نہ ہوسکے۔ لہٰذا ہمیں رمضان کے ایک ایک لمحہ کی حفاظت کرنی چاہییم تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضور اکرمؐ کی اس دعا کے تحت داخل ہوجائیں۔
حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں بجز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ (سنن ابن ماجہ)
یعنی روزہ رکھنے کے باوجود دوسروں کی غیبت کرتے رہتے ہیں، یا گناہوں سے نہیں بچتے یاحرام مال سے افطار کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ہر ہر عمل خیر کی قبولیت کی فکر کرنی چاہیے۔ حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ کیا یہ شبِ ِمغفرت، شب ِقدر ہی تو نہیں؟ آپؐ نے فرمایا نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمیں عید کی رات میں بھی اعمالِ صالحہ کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے، تاکہ رمضان میں کی گئی عبادتوں کا بھرپور اجر و ثواب مل سکے۔
٭ قربِ الٰہی:۔ روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔ روزہ کے متعلق حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔(صحیح بخاری)
اس سے زیادہ اللہ کا کیا قرب ہوگا کہ اللہ جل شانہ خود ہی روزہ کا بدلہ ہے۔ نیز حضورِ اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ تین اشخاص کی دعا رد نہیں ہوتی۔ ان تین میں سے ایک روزہ دار کی افطار کے وقت کی دعا ہے۔ حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔ (صحیح ابن حبان)
٭ عند اللہ اجرِ عظیم کا حصول:۔ اس برکتوں کے مہینے میں ہر نیک عمل کا اجر و ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر عملِ خیر کا دنیا میں ہی اجر بتادیا کہ کس عمل پر کیا ملے گا، مگر روزہ کے متعلق حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’الصَّوْمُ لِی وَانَا اَجْزِیْ بِہ!‘‘ روزہ میرے لیے ہے، اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ بلکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’مَیں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔‘‘ اللہ اللہ کیسا عظیم الشان عمل ہے کہ اس کا بدلہ ساتوں آسمانوں و زمینوں کو پیدا کرنے والا خود عطا کرے گا، یا وہ خود اس کا بدلہ ہے۔
روزہ میں عموماً ریا کا پہلو دیگر اعمال کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا ’’الصَّوْمُ لِی‘‘ روزہ میرے لیے ہے۔
لہٰذا ہمیں ماہ رمضان کی قدر کرنی چاہیے کہ دن میں روزہ رکھیں، پنچ وقتہ نماز کی پابندی کریں، کیوں کہ ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قرآن وحدیث میں نماز کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ حضورِ اکرمؐ کی آخری وصیت بھی نماز کے اہتمام کی ہی ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز ہی کے متعلق ہوگا۔ نمازِ تراویح پڑھیں، اور اگر موقع مل جائے، تو چند رکعات رات کے آخری حصہ میں بھی ادا کرلیں۔ فرض نمازوں کے علاوہ نمازِ تہجد کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآنِ کریم میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔
رمضان کے آخری عشرہ میں تہجد پڑھنے کا اہتمام کریں۔ کیوں کہ حضورِ اکرمؐ کے اقوال وافعال کی روشنی میں امتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں پائی جاتی ہے، جس میں عبادت کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں یعنی پوری زندگی کی عبادت سے زیادہ افضل قرار دیا ہے۔ اسی اہم رات کی عبادت کو حاصل کرنے کے لیے دو ہجری میں رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد سے حضورِ اکرمؐ ہمیشہ آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مبارک ماہ کی قدر کرنے والا بنائے، اور شبِ قدر میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جس طرح ہم روزہ میں کھانے پینے اور جنسی شہوت کے کاموں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے رُکے رہتے ہیں، اسی طرح ہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہونی چاہیے۔ ہماری روزی روٹی اور ہمارا لباس حلال ہو، ہماری زندگی کا طریقہ حضورِ اکرمؐ اور صحابۂ کرام والا ہو، تاکہ ہماری روح ہمارے جسم سے اس حال میں جدا ہو کہ ہمیں ، ہمارے والدین اور سارے انس وجن کا پیدا کرنے والا ہم سے راضی وخوش ہو۔ دارِ فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کے وقت اگر ہمارا مولا ہم سے راضی وخوش ہے، تو اِن شاء اللہ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی ہمارے لیے مقدر ہوگی کہ اس کے بعد کبھی ناکامی نہیں۔
قارئین کرام! اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس ماہِ مبارک میں زیادہ سے زیادہ اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور رمضان کے صیام وقیام اور تمام اعمالِ صالحہ کو قبول فرمائے۔ رمضان کے بعد بھی منکرات سے بچ کر احکامِ خداوندی کے مطابق یہ فانی و عارضی زندگی گذارنے والا بنائے، آمین، ثم آمین!
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔