پاکستان دنیا کا عجیب و غریب اور دلچسپ ملک ہے۔ یہاں آپ کو پرانی جیتی گئی جنگوں کے قصے فخرسے سنائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں سرحد پہ ہلکی سی چھیڑ خانی پہ بھی عوام جلال میں آجاتے ہیں، اور فوج کو ان کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے کہ ’’ہم ہیں نا، آپ گھروں میں ہی رہیں۔‘‘ یہ عجیب و غریب قوم ہے کہ آپ جو مرضی کر لیں، جس طرح چاہیں الرٹ جاری کر دیں، یہ وہی کریں گے جو ان کا دل چاہے گا۔ جیسے سیلاب آتا ہے، تو یہ لوگ بہتے پانی میں سامان پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زلزلہ آتا ہے، تو امپورٹڈ امداد کچھ دن بعد مارکیٹوں میں بکتی نظر آتی ہے۔ یہ دلچسپ قوم اس لیے ہے کہ یہ کسی چھوٹی سے بات کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور پورا ہاتھی گزر جانے کی ان کو پروا نہیں ہوتی۔ دنیا سمجھتی ہے کہ اہلِ پاکستان صرف کھیلوں میں غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں کہ جب تمام امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، تو یہ اچانک کم بیک کرتے ہیں، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ قوم ہر شعبے میں ہی غیر یقینی رویہ رکھتی ہے۔
پوری دنیا چیختی رہی، اور چیخ رہی ہے کہ کرونا ایک وبا بن چکا ہے۔ یہ لاکھوں زندگیاں نگل لے گا۔ یہ ہزاروں کو نگل چکا ہے اور ’’ڈیتھ کاؤنٹر‘‘ رُک نہیں رہا۔ لیکن مجال ہے جو ہمارے کان پہ جوں تک رینگی ہو۔ یہ صرف ایک حکومت تک سلسلہ رُکتا نہیں، بلکہ آپ عوامی رجحانات کا جائزہ لیجیے، تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آئے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کے تمام مذاہب اور تمام فرقے اس بات پہ متفق ہو چکے ہیں کہ اس وبا سے نمٹنا مشکل مرحلہ ہے، تو ایک چہلم کی دعا میں ایک صاحب غصے میں مائیک پہ کہتے نظر آئے کہ دنیا پاگل ہو چکی ہے۔ وہ ممالک کو لعن طعن کرتے رہے کہ انہوں نے سب کچھ بند کر دیا۔ سوچا ان صاحب سے کہوں کہ ’’حضور، آپ جتنے جوشیلے ہیں، تو ذرا یہ جوش اس وارڈ کا چکر لگا کے دکھا دیجیے، جہاں کرونا کا شکار کوئی مریض داخل ہے۔‘‘ یقینی تھا کہ وہ بات سنتے ہوئے آگ بگولہ ہو جاتے۔ شادی کی تقریب کا حال ملاحظہ کیجیے۔ شادی ہال بند ہوگئے، لیکن تقریبات گھروں میں منتقل ہوگئیں۔ ایک صاحب نے بیٹے کا ولیمہ ہال کی بکنگ کینسل ہونے کے بعد ایک خالی پلاٹ میں منتقل کر دیا اور محو حیرت ہو کر عرض کی کہ صاحب یہ تو آپ مسئلہ بنا دیں گے۔ اللہ نہ کرے ایک بھی یہاں وائرس کا شکار مریض موجود ہوا، تو جواب میں ان کا جاندار قہقہہ سننے کو ملا اور بس۔ یہ بطورِ مجموعی ہمارے قومی رویے ہیں۔
بس سٹاپ کا منظر دیکھیے، لاریاں ہارن پہ ہارن دیے جا رہی ہیں۔ سڑکوں پہ اب بھی ٹریفک اسی طرح جام ہے۔ کوئی شک نہیں توکل ایک بہتر عمل ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیدا کرنے والے نے حضرتِ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اس لیے دیا کہ عقل سے کام بھی لیجیے۔ لیکن ہم ایسا کرنا گوارا نہیں کریں گے۔
دفاتر سامنے نہیں، تو چوری چھپے کچھ نہ کچھ چلائے جا رہے ہیں کہ بھئی، تنخواہ نہیں دیتے کیا ہم؟ یعنی ہمیں پروا نہیں، دنیا میں تو لوگ سازش کے تحت مر رہے ہیں۔
بلدیاتی نظام میں سابقہ ادوار میں اہم مقام رکھنے والے ایک صاحب بولے کہ مجھے تو اب بھی مکمل یقین ہے کہ یہ سازش ہے مسلمانوں کے خلاف۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ جناب اس وائرس نے نہ مسلمانوں کا قبلہ چھوڑا، نہ عیسائیوں کا ویٹی کن سٹی، نہ یہودیوں کی دیوارِ گریہ بچ پائی، نہ ہندوؤں کے مندر، نہ سکھوں کے گرداورے کا کرونا وائرس نے کوئی لحاظ کیا ہے، نہ بدھ مت کی عبادت گاہوں کا۔ اس وائرس نے تو مذہب و فرقہ کی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنا کام کیا ہے، مگر ہم ہیں کہ ابھی تک عقل سے کام لینے کے بجائے اس میں سے سازشیں تلاش کر رہے ہیں۔
عوامی مجموعی رویے تو بطورِ قوم ہمارے طرزِ عمل کی عکاسی کرتے ہی ہیں، لیکن اربابِ اختیار جنہیں عام بول چال میں حکمران کہا جاتا ہے، ان کا رویہ بھی کچھ خاص الگ نہیں۔ یہ چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں، اور ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ لوگ عوامی رویوں کے برعکس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، لیکن ان کے ہاں بھی ذمہ داری مفقود ہے۔ یہ اس وقت خوابِ غفلت سے بیدار ہوتے ہیں جب سر پہ پڑ جائے۔ اور ایسا ہونا ہمارے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ سب چیختے رہے کہ کچھ عقل سے کام لیجیے، حالات بگڑ رہے ہیں۔ ہم نے بس سوچے رکھا: ’’سانوں کیہ!‘‘ اور پھر آپ دیکھ لیجیے کہ تفتان اگر ووہان بنا ہے، تو کراچی، سکھر، حیدر آباد، ملتان، ڈیرہ غازی خان، اسلام آباد، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں حالات کس نہج پہ جا رہے ہیں؟ ہمیں اٹلی کی سڑکوں پہ لاشیں ڈھوتے فوجی ٹرک بس تصویروں کی حد تک نظر آ رہے ہیں۔ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے ہاں انسانی المیے کو جنم دینے کی اپنی کوششوں کو یکسر نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ چین میں پاکستانی طلبہ اگر موجود رہے، تو یاد رکھیے چین نے ان کی ذمہ داری لی، اور چین ذمہ داری لے سکتا تھا کہ وہ دنیا کی اقتصادی طاقت ہے۔ لیکن اگر ایران، پاکستانی زائرین کو نہیں رکھ سکا، تو اس پہ تنقید کے بجائے یہ دیکھیے کہ ایران کے پاس ہے ہی کیا؟ طبی سہولیات نہ کھانے پینے کا اعلیٰ نظام، انفراسٹرکچر نہ ہنگامی معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت۔ وہ کرتا بھی کیا؟ درخواست کی کہ زائرین کو پاکستان واپس لیجیے۔ہمیں انہیں ہر حال میں واپس لینا تھا کہ ایران کے حالات ہم سے بھی گئے گزرے ہیں۔ وہاں گرتی لاشیں گواہی دے رہی ہیں۔
ہم نے پہلے تو تفتان میں واپس آنے والوں کو قید کی سی صورتحال میں رکھا اور ان سے توقع بھی رکھی کہ وہ رضاکارانہ طور پر ہمارا ساتھ بھی دیں۔ رہی سہی کسر ہم نے تبلیغی جماعت والوں کو غلط طریقے سے ہینڈل کرکے پوری کر دی۔ زائرین اور تبلیغی جماعت کے اراکین کے علاوہ عام پاکستانی جو حکومتِ وقت پہ اعتماد نہیں رکھتے، وہ جو ملک کے مختلف حصوں میں آگئے، وہ نجانے کیا رُخ اختیار کرے گا معاملہ۔
چین میں حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھنے والے چیختے رہے کہ بلوچستان پہ توجہ دیجیے، لیکن آپ کی نیند میں شاید خلل پڑتا تھا۔ اس لیے توجہ دینا آپ نے مناسب نہ سمجھا۔ دوسری بات کتنے عرصہ سے تفتان کے راستے آمد و رفت جاری ہے؟ کیا یہ آج کی بات ہے! آپ کو یہ یاد رہا کہ تفتان، کوئٹہ سے سات سو میل دور جنگل بیاباں ہے، لیکن یہ آمد و رفت تو سالہا سال سے جاری ہے، تو آپ نے کیا اس بارڈر پہ آج تک مناسب اقدامات کیے؟ جب ہم نے تفتان بارڈر پہ معاملات کو برے طریقہ سے ہینڈل کیا، تو لوگ بددل ہو گئے اور کسی طرح ملک میں داخل ہو کے سلپ ہونا شروع ہوگئے۔ ان کا اداروں پہ اعتماد نہیں رہا۔ ان کا حکمرانوں پہ اعتماد نہیں رہا۔
سندھ حکومت کا بھلا ہو کہ کسی نہ کسی حد تک ذمہ داری کا ثبوت دیا، لیکن مرکز ائیرپورٹس تک کو نہ سنبھال سکا اور ایک خبر نظر سے گذری کے ایک صاحب مثبت رپورٹ ہونے کے باوجود چھے ہزار روپے دے کے نکل گئے۔ نتیجتاً گھر جا کے صاحبزادے میں بھی کرونا پھیلانے کا باعث بن گئے۔ ہم روتے عوام کو ہیں، لیکن حال برا حکمرانوں کا بھی ہے۔ کانفرنس ہوتی ہے، وزیر اعظم بیس منٹ رٹی رٹائی باتیں دُہراتے ہیں اور توقع یہ کرتے ہیں کہ اپوزیشن کے راہنما بس ان کی باتیں سنیں اور باقی سوال جواب آپ کے نائبین سے کریں۔ گلہ کس سے کریں اور کیا گلہ کریں کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ سونے پہ سہاگا، عوام کے سامنے آئے اور ایٹمی قوت ملک کا وزیر اعظم کہنا شروع ہوگیا کہ ’’ہم بھوکے مر جائیں گے۔‘‘ ارے صاحب، آپ نے عوام کو حوصلہ دینا ہے۔ ان کا مورال ڈاؤن نہیں کرنا۔ فرض کیجیے آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ آپ کے پاس کوئی سہولت موجود نہیں۔ آپ تہی دست ہیں، لیکن عوام کے سامنے بہرحال آپ کو ہمت کی داستاں رقم کرنی ہے کہ عوام کا کیا حال ہو گا جب ان کا حاکم کہتا نظر آئے کہ مجھ پہ آسرا نہ رکھنا۔ خدارا، عقل سے کام لیجیے۔ آپ کو اللہ نے عقل عنایت ہی اس لیے کی ہے کہ اس کا استعمال کیا جائے۔ کیا ہمارے پاس 14 دن کے وسائل بھی موجود نہیں؟ آپ سے اچھے تو گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ ٹھہرے کہ آپ کے قلت کے بیان کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ایک ماہ کا پٹرول موجود ہے۔ اور ہم ہیں کہ دو ماہ گذرنے کے باوجود اب بھی فیصلہ نہیں کر پائے کہ لاک ڈاؤن مکمل کرنا ہے یا جزوی، کون سا کاروبار کھولنا ہے اور کون سا بند کرنا ہے۔ اپنی کمزوری خود ظاہر کر رہے ہیں، تو کل سرحد پہ دشمن کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ اسلحے کے انبار تو نہیں لڑتے۔ لڑتے تو حوصلے ہیں، اور آپ اچھا حوصلہ بڑھا رہے ہیں کہ خود ہی جھک گئے ہیں!
جرمنی، امریکہ، برطانیہ، ایران، چین، اٹلی، فرانس اور لاتعداد ایسے ممالک ہیں جہاں کرونا وائرس پہنچ چکا، لیکن وہاں کے حکمرانوں نے عوام کو حوصلہ دیا۔ لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں، لیکن حکمران وہاں اس وبا سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ کر رہے ہیں۔ اور ایک ہمارے حکمران ہیں جو عوام کے سامنے صرف یہ کہنے آتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ لاک ڈاؤن ہوا، تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔
ارے ظالمو! لاک ڈاؤن ہو، تو بھی اپنے اللے تللے کچھ کم کر کے عوام کو ان کے گھر تک سہولیات دو۔ جواب عوام کو نہ دیجیے لیکن خدا تو سوال کرے گا کہ اقتدار بخشا مَیں نے، تو کیا اس کا استعمال درست کیا؟
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔