پرانی ضرب المثل ہے کہـDon’t change horses mid stream. یعنی ندی پار کررہے ہو، تو وسط میں جاکر گھوڑوں کو نہ بدلو۔
تاریخ میں ایسے اوقات آئے جب عین جنگ کے دوران فوج کی کمان بدلنے یا سپہ سالار کی سواری بدلنے سے جنگ ہار دی گئی۔ سا موگڑھ کی لڑائی جو اورنگزیب اور دارا شکوہ کے مابین ہوئی۔ دارا شکوہ جس کی ذاتی کمان میں 50 ہزار سوار حکم کے منتظر رہتے تھے، اور شاہی فوج اس کے علاوہ تھی۔ دارا گھمسان کی جنگ کے وقت ہاتھی ـ’’ہودے‘‘ سے اتر کر گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ یہی غلطی اس کی شکست کا باعث بنی۔
1965ء کی جنگ میں پاک فوج جب چھمب جوڑیاں فتح کرتی ہوئی پیش قدمی کررہی تھی، عین اس وقت فیلڈ مارشل ایوب خاں کے حکم پر جنرل اختر ملک کمانڈر 12 انفینٹری ڈویژن کی جگہ جنرل یحییٰ خاں کو تعینات کردیا گیا۔ نتیجہ پاک فوج کی پیش قدمی رک گئی۔ فوجیوں کا مورال اثرانداز ہوا۔ بھارتی افواج جو اس محاذ سے دم دبا کر بھاگ رہی تھیں، انہوں نے رُک کر مورچے سنبھال لیے اور جوابی حملے شروع کردیے۔ دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز اپنی کتاب”Swords Crossed” میں لکھتا ہے: ’’پاک فوج جنرل اختر ملک کی کمان میں یکم ستمبر صبح 5 بجے حملہ آور ہوئی، جب کہ پاک توپ خانہ نے صبح ساڑھے تین بجے دشمن پر بمباری شروع کر دی۔ پاک فوج جس میں آرمرڈ اور انفینٹری کے دستے بھی تھے، شیروں کی طرح دشمن پر لپکے اور بھارتی فوج جو اپنے ٹینکوں اور مشین گنوں کے ساتھ مورچہ بند تھی، دشمن کی صفوں کو روندتی ہوئی جا رہی تھی۔ دوسری صبح 9 بجے پاک فوج نے چھمب پر قبضہ کرلیا۔ بھارتی ایئر فورس نے غلطی سے اپنے ہی فوجیوں پر بمباری کردی اور پاک فضائیہ نے پاک فوج کو فل ایئرسپورٹ دی۔ اس موقع پر کشمیر محاذ پر کمان تبدیل کردی گئی۔ جنرل اختر ملک کی جگہ جنرل یحییٰ خاں کو بھیج دیا گیا۔ پاک فوج کی پیش قدمی رک گئی۔ بریگیڈیئر افتخار نے (جو 71ئ کی جنگ میں شہید ہوئے ) جنرل یحییٰ خاں کو پیغام بھیجا کہ ہمیں پیش قدمی کا حکم دیا جائے۔ یحییٰ خاں نے جواب دیا: ’’افتی، جہاں ہو رُک جاؤ اور مورچوں کی کھدائی کراؤ!‘‘
شجاع نواز لکھتے ہیں: ’’پاک حملہ رک جانے سے بھارتی افواج "Regroup” ہوگئیں۔ چھمب اور جوڑیاں کے اردگرد انہوں نے اپنے مورچے سنبھال لیے۔ پاک فوج کے حملے کا "Momentum” ٹوٹ گیا۔ اکھنو ر پل کا بچ جانا بھارتی جرنیلوں کا کارنامہ نہ تھا، بلکہ پاک ہائی کمان کی فاش غلطی تھی کہ جو فوج منور توی کو پار کرگئی، اس کے جنرل کو بدل دیا گیا، یعنی 12 ڈویژن کے کمانڈر اختر ملک کو جو کئی بار علاقہ کی ریکی کرچکا تھا، اس کی جگہ یحییٰ خاں کو بھیج دیا۔‘‘
پوری دُنیا آفتِ ناگہانی کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ اس وقت حالتِ جنگ میں ہے ۔ہزاروں افراد روزانہ پوری دنیا میں لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ امریکہ، اٹلی اور سپین میں لاشیں سڑکوں پر پڑی ہیں، اور دفنانے کے لیے لوگ میسر نہیں۔ پوری دُنیا کے سائنس دان اس وائرس کے لیے ویکسین اور ادویات بنانے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ تمام دُنیا کی عسکری و سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر اکھٹی ہوکر اپنے مشترکہ دُشمن کو شکستِ فاش دینے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ نہ کوئی حفاظتی لباس کی بات کر رہا ہے اور نہ ہی وینٹی لیٹرز کی کمی کا رونا رو رہا ہے، بلکہ جو دستیاب وسائل ہیں، انہی سے کام چلایا جا رہا ہے۔ تادمِ تحریر دنیا میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین 19 لاکھ 50 ہزار اور ہلاکتیں ایک لاکھ 17 ہزار سے بڑھ گئی ہیں۔ امریکی ریاست نیویارک میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ورلڈ بینک نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ پچھلے 40 سالوں کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن نے مختلف کاروباروں کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے، اور اطلاعات کے مطابق صرف امریکہ میں یومیہ ایک کروڑ 40 لاکھ لیٹر دودھ ضائع ہو رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے ملک میں کورونا کی وبا کی روک تھام کے سلسلے میں حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیرِ صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی قابلیت اور کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ عدالت نے یہ آبزرویشن پیر کو سپریم کورٹ میں کورونا وائرس کے پیشِ نظر ہسپتالوں میں سہولیات سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے موقع پر دی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے ظفر مرزا کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بارے میں آبزرویشن بھی دی، لیکن بعدازاں لکھوائے جانے والے حکم میں اس بات کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا۔ عدالتی ریمارکس کے بعد اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس موقع پر ظفر مرزا کو ان کے عہدے سے ہٹانا تباہ کن ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’یہ اختیار وفاقی حکومت کا ہے اور وفاقی حکومت کو ہی اس کا فیصلہ کرنے دیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ہیں اور کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے حکومتی اقدامات پر روزانہ کی بنیاد پر بریفنگ دیتے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سروسز کی ویب سائٹ کے مطابق اس سے قبل وہ قاہرہ میں عالمی ادارۂ صحت کے ایک علاقائی دفتر کے ڈائریکٹر ہیلتھ سسٹمز ڈیویلپمنٹ رہ چکے ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ اور شمالی و مغربی افریقہ میں 22 ممالک کے لیے کام کرتے تھے۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انہیں صحت کے شعبے میں کئی برسوں کا تجربہ ہے، اور وہ ایران میں بھی عالمی ادارۂ صحت کے نمائندے کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
ملک میں کرونا وائرس کی روک تھام اور تدارک کے لیے وفاقی حکومت، خصوصاً وزارتِ صحت نے ڈاکٹر ظفر مرزا کی سربراہی میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے این ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر ملک بھر کے ہسپتالوں، لیبارٹریوں اور طبعی آلات کی دستیابی کے حوالے سے دن رات محنتِ شاقہ کی بدولت جو خدمات سرانجام دی ہیں، انہیں سراہا جانا ضروری ہے۔ کرونا وائرس جس طرح پوری دنیا میں پھیلا، ویسے حالات پاکستان میں نہیں ہیں، بلکہ حکومت نے لاک ڈاؤن سے 80 فیصد نتائج حاصل کیے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک حالتِ جنگ میں ہے، ایک محکمۂ صحت کے سربراہ کو تبدیل کرنا یقینا قابل ستائش کام نہیں ہے۔ اس فعل سے انتظامی معاملات، صحت کے شعبے میں لائی جانے والی اصلاحات اور ’’اَپ گریڈیشن‘‘ پر فرق پڑسکتا ہے۔اگر ہم اپنے ملک میں کرونا کے پھیلاؤ کا دنیا کے ساتھ تقابل کریں، تو نہ صرف ہمارے ہاں مریضوں کی تعداد کم ہے، بلکہ شرحِ اموات کا تناسب بھی حیرت انگیز ہے۔ ہماری سیاسی قیادت اور اداروں کو یک جان ہو کر ملکی مفاد کو مقدم رکھ کر مشترکہ دشمن سے لڑنا ہوگا۔ آپسی لڑائی ہمیشہ دشمن کوہی فائدہ دیتی ہے۔ جس کاکام اُسی کو ساجھے کے مصداق حکومت کا کام حکومت ہی کو کرنے دیا جائے، تو بہتر ہے۔ البتہ عدالتِ عظمیٰ کو وقتاً فوقتاً نہ صرف عدالتی معاونین ڈاکٹروں کے پینل کے ذریعے سے صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے، بلکہ راہنمائی کا فریضہ بھی انجام دینا چاہیے۔ حکومت کوچاہیے کہ وہ اس معاملے پر عدالت سے نظرِ ثانی کا مطالبہ کرے۔ کیوں کہ ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا کام حکومت کا ہے، عدالت کا نہیں۔ اگر ظفر مرزا پر کوئی الزامات ہیں، تو وہ اس وبا کے تدارک کے بعد بھی سنے جا سکتے ہیں۔
’’لاء اینڈجسٹس کمیشن‘‘ کی مارچ 2018ء کی دستیاب رپورٹ کے مطابق پاکستان عدالتوں میں 18 لاکھ 69 ہزار 886 کیس زیرِ التوا ہیں۔ سپریم کورٹ میں 38 ہزار 5 سو 39کیس زیرِ التوا ہیں، جب کہ تمام ہائی کورٹس میں زیرِ التوا کیسوں کی تعداد 2 لاکھ 93 ہزار 9 سو 47 ہے۔ لاہورر ہائی کورٹ میں 1 لاکھ37 ہزار 5 سو 42، سندھ ہائی کورٹ میں 93 ہزار3 سو35، پشاور ہائیکورٹ میں 30 ہزار 7 سو 64، بلوچستان ہائی کوررٹ میں 6 ہزار 30 جب کہ اسلام ہائی کورٹ میں 16ہزار 2 سو 78کیس فیصلوں کے منتظر ہیں۔
یقینا چیف جسٹس ان مقدمات کے جلد از جلد فیصلوں کے لیے نہ صرف از خود نوٹس لیں گے، بلکہ ان کے جلد فیصلوں کے لیے ضروری احکامات بھی جاری کریں گے۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔