قرنطینہ، قیدِ تنہائی نہیں!

صفائی کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ماحول انتہائی صاف ستھرا ہے۔ جراثیم کش محلول سے صفائی کی جاتی ہے۔ صفائی کرنے والا عملہ دن میں ایک سے زائد مرتبہ یہاں کا رُخ کرتا ہے۔ کھانے کے حوالے سے بھی حالات انتہائی مناسب ہیں۔ وقت پہ کھانا میسر ہوتا ہے اور کھانا بھی ایسا کہ گھر جیسا۔ کھانے میں بھی ہفتہ وار مینو ترتیب دیا گیا ہے۔ سبزیوں اور گوشت کا ایک مناسب تناسب موجود ہے۔ کھانا کھانے کے لیے تلف ہو جانے والے برتن موجود ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز مستقل بنیادوں پہ چیک اَپ نہ صرف کرتے ہیں بلکہ کسی بھی قسم کی غیر معمولی صورتحال کو سنبھالنے کے لیے ہمہ وقت چاق و چوبند رہتے ہیں۔ مریض کی صحت کی صورتِ حال کو ہر لمحہ مانیٹر کیا جاتا ہے۔ گھر رابطے کا ذریعہ صرف موبائل فون ہے، جس پہ بوقتِ ضرورت ویڈیو کال یا دیگر سوشل میڈیا فورمز کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ نرسنگ سٹاف ہمہ وقت ہماری دیکھ بھال میں مصروف رہتا ہے۔ معمول کی ادویہ اگر عام حالات میں لی جا رہی ہیں، تو ان کا بھی خیال نہ صرف رکھا جاتا ہے بلکہ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی کوتاہی نہ ہو۔ ایک ہال میں ہم کل چھے لوگ ہیں اور ہمارا باہمی رابطہ ہمیں اس ہال میں مایوس نہیں ہونے دیتا۔ ہم سب ایک دوسرے کی ہمت بن گئے ہیں اور ہم چھے لوگ وقت گزاری کے لیے آپس میں گفتگو کے لیے کوئی نہ کوئی موضوع نکال ہی لیتے ہیں۔ میرے پاس ایک الیکٹرک کیٹل موجود ہے جس میں پانی گرم کرنے کی سہولت ہے، جس سے چائے یا قہوہ بنانے میں آسانی ہو گئی ہے۔ ہم سے ہر روز معمول کے سوال جواب کیے جاتے ہیں کہ جس سے ہماری کیفیت جاننے کا نہ صرف موقع ملے بلکہ ہماری مناسب دیکھ بھال بھی ہوسکے۔ پہلے دل میں خوف تھا، لیکن موجودہ حالات میں اس طرزِ عمل سے نہ صرف دل سے خوف کا عنصر کم ہو رہا ہے بلکہ اس سے مقابلہ کرنے کی ہمت بھی پیدا ہو رہی ہے۔
یہ ایک مرکزی شہر کے قرنطینہ میں داخل ایک مریض کے الفاظ ہیں۔ مریض ابھی قرنطینہ میں ہیں اور اللہ کرے جلدسے جلد مکمل صحت یاب ہو کر اپنے خاندان سے آ ملیں، لیکن ان کے الفاظ سے اس بیماری کے خلاف لوگوں کے دلوں سے خوف کم کرنے میں یقینی طور پر مدد ملے گی۔ ہم تواتر سے سنتے رہے ہیں کہ وینٹی لیٹر کا مرکزی کردار ہے اس بیماری کے خلاف جنگ میں۔ کرونا کے سیریس مریض جب وینٹی لیٹر پہ منتقل ہوتے ہیں، تو ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہو جاتا ہے۔ ان کی ریکوری کا بنیادی نقطہ ادویہ سے زیادہ مضبوط مدافعتی نظام ہے۔ مدافعتی نظام جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی وہ کرونا کے خلاف بہتر طور پر نبر د آزما ہوسکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو خوف کی اس قائم فضا کو نہ صرف ریخت کا شکار کرنا ہو گا بلکہ جو مریض اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں، انہیں ہمیں ہمت کا استعارہ اپنی کوششوں سے بھی بنانا ہوگا۔ کرونا کا شکار افراد خصوصی توجہ کے قابل تو ہیں، لیکن زیادہ اہم کردار معاشرے کے صحت مند افراد کا ہوچکا ہے کہ وہ اس بیماری کے خلاف آگاہی پھیلاتے ہوئے کیسے لوگوں میں اس بیماری کے خلاف بنا خوف کا عنصر پیدا کیے شعور پھیلاتے ہیں۔
حکومت اپنی جگہ کام کر رہی ہے۔ سوشل ڈسٹنسنگ کی اصطلاح تو عام ہو چکی ہے، لیکن بنیادی طور پر ہمیں سوشلی یا معاشرتی یا سماجی فاصلے کے بجائے ظاہری جسمانی فاصلے کا نعرہ لگانا چاہیے تھا۔ سوشلائز ہو کے تو ہم اپنی تنہائی کو کارآمد بنا سکتے ہیں۔ قرنطینہ چاہے حکومتی سرپرستی میں ہو یا گھر پہ، دونوں صورتوں میں زیادہ اہم نقطہ تو یہ ہے کہ اس بیماری کے خلاف تنہائی میں رہتے ہوئے بھی معاشرے سے الگ نہ رہا جائے۔ تفتان بارڈر پہ جہاں حکومتی قرنطینہ پہ تنقید کرنا ہمارا حق ہے کہ سہولیات کا فقدان ہونے کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوا اور وہ بنا چیک اَپ ہوئے نکلنے کی سبیل کرنے لگے، تو دوسری جانب مندرجہ بالا قرنطینہ کا حقیقی منظر آپ کے سامنے ہے۔ ابتدائی دنوں میں بہت کچھ درست نہیں ہو پایا، لیکن موجودہ حالات میں حکومت کے اقدامات یقینی معنوں میں بہتری کا عنصر لیے ہوئے ہیں۔ درجہ بندی کے لحاظ سے بلاشبہ سندھ واضح سبقت لیے ہوئے ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سندھ حکومت کے اقدامات بھی بطورِ مجموعی پاکستان میں کرونا وائرس سے نمٹنے میں اہم ثابت ہو رہے ہیں۔ یہاں باہمی رابطے کا فقدان نظر آیا، ابتدائی دنوں میں جو ابھی ختم ہوتا نظر آ رہا ہے کہ وزیرِ اعظم نے تمام وزرائے اعلیٰ سے مشاورت کی لاک ڈاؤن کی مدت بڑھانے یا اس کو ختم کرنے کے حوالے سے ۔ سندھ حکومت کا ایک نقطۂ نظر یا تجویز تھی کہ لاک ڈاؤن بڑھایا جائے۔ اس پہ بھی وفاق نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے یکسر رد کرنے کے بجائے کسی نہ کسی حد تک مان لیا۔
پہلے پہل جو غلط فہمیاں پھیلیں کہ پولیس پکڑ دھکڑ کرتے ہوئے کرونا کا شکار مریضوں کو ہسپتال پہنچاتی رہی، جس سے ایک ہیجانی کیفیت پھیلنا شروع ہوئی۔ لیکن حکومت کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے، اور اب اقدامات اعتماد سازی اور شعور و آگاہی کا عنصر لیے ہوئے ہیں۔ لوگوں میں کرونا کے خوف سے زیادہ آگاہی پھیلتی جا رہی ہے۔ حکومت کی یقینی طور پر ذمہ داری ہے، لیکن کچھ ذمہ داریاں بطورِ عام پاکستانی ہماری بھی ہیں جن کی جانب بہر حال ہمیں ہی توجہ دینا ہوگی۔ حکومتی اقدامات ناکافی ہوسکتے ہیں، لیکن موجودہ وسائل میں جو حکومت کر پا رہی ہے، یہ بھی غنیمت ہے۔ ہم کہنے کو تو ایک ایٹمی طاقت ہیں، لیکن وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہمیں لپیٹ میں لیے ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے صحت و تعلیم کی سہولیات ابھی اس معیار کی نہیں ہیں جو ہونی چاہئیں۔
حکومتی قرنطینہ مراکز کے بعد اہم نقطہ سیلف آئی سولیشن یعنی رضاکارانہ بنیادوں پر گھر میں قرنطینہ کرنا ہے۔ یاد رکھیے کہ معمولی علامات پہ یا حفظِ ماتقدم کے طور پہ ہی قرنطینہ اختیار کرنا کسی بھی طرح قیدِ تنہائی یا سزا نہیں ہے۔ مدتِ قرنطینہ میں خود کو جانیے۔ اپنے آپ کو پہچانیے۔ خود سے جڑے رشتوں کی قدر کو دل میں جگہ دیجیے۔ بہت کم افراد اس مرض کی وجہ سے جاں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس مرض سے صحت یابی کا تناسب زیادہ ہے، لیکن ہمیں امید کو بہرحال جگہ دینا ہوگی۔ کرونا وائرس جس حد تک بھی جان لیوا ہے، جب تک اس کی ویکسین ایجاد نہیں ہو پاتی، ہمیں قرنطینہ کو اس بیماری کے خلاف ہتھیار بنانا ہو گا۔ قرنطینہ میں دنیا کے نامور افراد اپنا معمول کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں بھی قرنطینہ کو ایک سچائی سمجھتے ہوئے اس میں خوفزدہ ہونے کے بجائے اس مدت کو تعمیری بنانا ہو گا اور لوگوں کو اس کی جانب راغب کرنا ہو گا۔ ایسا ماحول ترتیب دینا ہوگا، جیسا اول الذکر مریض کا تجربہ بیان کیا گیا کہ لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیسٹ بھی کروائیں اور قرنطینہ کی طرف راغب ہوں۔ بجائے اس کے کہ وہ قرنطینہ کو صرف قید تنہائی سمجھتے ہوئے، اس کواپنے لیے ایک سزا سمجھتے ہوئے، اس سے دور بھاگیں اور معاشرے میں کرونا پھیلانے کا سبب بن جائیں۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔