نپولین نے ایک لحاظ سے جدید آمریت کی بنیادیں ڈالیں، مثلاً اپنے دورِ حکومت میں اس نے جن باتوں پر عمل کیا، ان میں سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ ایک قانونی حکومت کو توڑ کر اس نے فوج کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد اپنے تحفظ کے لیے جو اقدامات اٹھائے وہ یہ تھے:
سنسر شپ کا محکمہ قائم کرکے میڈیا کو کنٹرول کیا۔ اخباروں میں اس کے خلاف کوئی خبر شائع نہیں ہوسکتی تھی، یہاں تک کہ لڑافلگر کی جنگ میں جس میں فرانس کو شکست ہوئی تھی، اُس کی خبر اخباروں میں نہ چھپ سکی۔ سنسر شپ کی پابندیوں کی وجہ سے صرف چار اخبار باقی رہ گئے۔ کیوں کہ ایک ہی قسم کی خبریں پڑھ پڑھ کر لوگوں نے اخبار خریدنا چھوڑ دیا۔ اسی طرح رسالوں کی تعداد گھٹ گئی۔ معاشروں کے لیے یہ لازم ٹھہرا کہ کتاب کی اشاعت سے پہلے سنسر شپ سے اس کی اجازت لی جائے۔ لہٰذا دانشوروں نے لکھنا بند کر دیا، یا اپنی کتابیں بیرونِ ملک شائع کرانے لگے۔
نپولین نے نصابی کتابوں کو بھی تبدیل کیا اور ان میں نپولین سے وفاداری پر زور دیا گیا۔ سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا گیا، جن کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ بعض مخالفین کو جو ہمسایہ ملکوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ انہیں اغوا کرلیا گیا۔ عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے ریفرنڈم کا طریقہ استعمال کیا گیا۔ مذہب کو اپنے اقتدار کے جواز میں استعمال کرنے کے سلسلے میں پوپ سے معاہدہ کیا اور عام لوگوں میں اس تصور کو اُبھارا کہ ملک خطرے میں ہے اور اس کی شخصیت ایسی ہے جو ملک کا دفاع کرسکتی ہے۔
نپولین نے جاسوسی کے ادارے کو بھی منظم کیا، تاکہ اس کے خلاف ہونے والی کسی بھی سازش یا تحریک کا فوری خاتمہ کرسکے۔
یہ وہ ماڈل تھا جو نپولین نے یورپ اور ایشیا اور افریقہ کے فوجی آمروں کو دیا اور جس کی بنیاد پر انہوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم کیا۔
(’’تاریخ کی خوشبو‘‘ از ’’ڈاکٹر مبارک علی‘‘، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، پہلی اشاعت، 2019ء، صفحہ نمبر 87 اور 88 سے انتخاب)