ایک ہاتھ میں سادی اور مانجھے کی ڈوروں سے بھری ہوئیں بڑی ہچکی چرخیاں اور ٹھاڑیاں تھیں۔ دوسرے ہاتھ کی بغل میں ایک چادر اور تکیے میں لپٹی ہوئی رنگ برنگ کی چھوٹی بڑی گڈیاں تھیں۔ ابھی سڑک کنارے آئے ہی تھے کہ کسی تانگے والے کی اُن پر نظر پڑی۔ جھٹ تانگہ پاس لا کر کھڑا کردیا، اور باآوازِ بلند کہا: ’’مرزا جی سواری حاضر ہے!‘‘ مرزا جی توتلے ہونے کے ساتھ ساتھ بہرے بھی تھے۔ جب تک گلا پھاڑ کر نہ بولتے، ان کے پلے کچھ نہ پڑتا تھا۔ ت اور دال کا تلفظ ٹ اور ڈال سے کیا کرتا تھے ۔ مرزا جی نے اس کی طرف دیکھا اور اپنے دلچسپ تلفظ کے ساتھ گویا ہوئے: ’’جاؤ بیٹا اپنا کام کرو، ٹم ڈھیلی روپے کی باٹ کرو گے، چیل کے گھونسلے میں بھلا ماس کہاں؟ انہی ہاٹھ پیروں سے پیر کر ڈلی سے آگرے جالیا، ٹو قٹب پہنچنا کیا باٹ ہے ؟‘‘ تانگے والا یہ سن کر بولا واہ مرزا جی، یہ کیا بات کہی آپ نے! اور ساتھ ہی اپنی ریزگاری سے بھری ہوئی جیب کو کھنکھنا کر کہنے لگا، یہ سب تو آپ ہی کی دعاؤں کا ظہور ہے مرزا جی……! ہم تو آپ کے دیدار اور شعروں کے بھوکے ہیں۔ بس دو چار پھڑکتے ہوئے شعر ہو جائیں۔ باقی آپ سے کیا لینا! یہ سن کر مرزا جی متبسم ہو کر بولے، ’’اچھا بیٹا، ٹیری مرضی لیکن شرٹ یہ ہے کہ ڈلی دروازے اور نظام الڈین کے بیچ میں سناؤں گا۔‘‘ مرزا جی سوار ہوئے تانگہ دلی دروازے سے نکل کر کوٹلہ فیروز شاہ کو پار کرنے لگا تھا کہ تانگے والے نے مرزا جی کو ٹوکا، ’’ہاں، مرزا جی اب ہوجائیں دو شعر!‘‘، ’’ابے سن لیجیؤ، مرا کیوں جاٹا ہے۔ ابھی ٹو نظام الڈین بہت دور ہے اور ٹم ٹو شام تک بھی قٹب پہنچا ڈے، ٹو غنیمت ہے۔‘‘ یہ سن کر ادھر تانگے والے نے تانگہ ذرا تیز کیا، تو ادھر مرزا جی کی زبان شعروں کے فراٹے بھرنے لگی۔ مقبرہ صفدر جنگ پہنچ کر مرزا جی تانگہ رکوا کر اترے۔ پنواڑی سے پان کا پیڑا لگوایا۔ سگریٹ سلگا کر دوچار کش لیے، اور واپس آکر تانگے میں بیٹھ گئے۔ جوں ہی قطب صاحب کا مینار، بازار سے نظر آنے لگا تانگہ والے نے پوچھا، ’’مرزا جی! یہی اتار دُوں یا شاہی جھرنے پر؟‘‘ جواب ملا، ’’بیٹا! اپنا ٹھیا ٹو وہی پرانا جھرنا ہے۔ اسی کھنڈر کے کسی ڈر میں جاکے بیٹھیں گے۔‘‘
عزیزانِ من، ت اور دال کا یہ دلچسپ اور منفرد تلفظ ادا کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ہندوستان کے شاہی خاندان ہی کے چشم و چراغ تھے ’’مرزا فخر الدین عرفِ مرزا چپاتی‘‘، شاہ عالم کے پڑپوتے اور بہادر شاہ ظفرؔ کے بھانجے۔ اپنے زمانۂ شباب میں شاہی لنگر خانے کے داروغہ تھے۔ بادشاہ کی طرف سے اولیاء اللہ کے مزاروں پر ان کے سالانہ عرس میں چپاتیاں تقسیم کرتے تھے، اور اسی وجہ سے ’’مرزا چپاتی ‘‘مشہور ہوگئے۔ غدر کی بھاگڑ میں قلعہ سے نکلے بھاگتے بھاگتے دہلی سے آگرے گئے۔ پھر واپس دہلی آئے۔ پہلے قدم شریف گئے۔ پھر نظام الدین اولیا میں پناہ لی۔ غدر میں جو مصیبتیں جھیلیں اور صعوبتیں برداشت کیں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے جی بھر آتا تھا، اور غمزدہ آنکھیں پکے پھوڑے کی طرح پھوٹ بہتیں۔ سننے والوں کا دل بھی بے قابو ہو جاتا اور بے اختیار آنسو بہنے لگتے ۔ جوں ہی بہادر شاہ ظفرؔ کا ذکر آتا، مرزا جی دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے ۔
مرزا چپاتی اَن پڑھ ہوتے ہوئے فی البدیہہ شاعر، سپہ گری کے ماہر، شطرنج میں طاق، غضب کے تیراک، بلا کے ظریف اور حاضر جواب تھے۔ اپنے زمانے کے پتنگ بازوں کے سرخیل تھے، لیکن زمانے کی ستم ظریفی دیکھیے، عہدِ جوانی میں جس کے سر پر چوگوشہ مغلی ٹوپی اور پاؤں میں سلمے کی جوتی ہوتی تھی، عالمِ پیری میں اس مغل شہزادے کے سر پر اکثر لیس دار چوڑی ٹوپی، گلے میں ململ کا سفید کرتا، اور پاؤں میں پھٹے پرانے لتیڑے ہوتے تھے۔ اور ہر دن اسی حالت میں کسی تانگے میں بیٹھ کر شاہی جھرنے پہنچتے اور آثارِ قدیمہ کے کسی در پر چادر بچھاتے، تکیے کو دیوار سے لگا کر گاؤ تکیہ بناتے، ایک کونے میں چرخیاں کھڑی کرتے اور پتنگوں کو پھیلا کر رکھ دیتے تھے۔ الغرض اچھی خاصی دُکان لگا کر بیٹھ جاتے تھے۔
اُدھر مرزا جی کی دکان لگتی، اِدھر پتنگ باز ہاتھوں ہاتھ ان کی گڈیاں خریدنی شروع کردیتے۔ آس پاس دو تین پتنگ فروش اور بھی تھے، لیکن ان کی طرف کوئی بھی رُخ نہیں کرتا تھا۔ وہ بے چارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوتے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ لوگ مرزا جی کے بنائے ہوئے پتنگوں کے کانپ اور ٹھڈوں کے قائل تھے۔ کیوں کہ مرزا جی بناتے اور چھیلتے بھی غضب کے تھے، اور پھر خالی کانپ اور ٹھڈا ہی نہیں ساری ڈور پر مانجھا بھی وہ غضب کا چڑھاتے تھے، اور ایسی صفائی سے اس کو سوتتے کہ رہے نام سائیں کا۔ ایک دو ہاتھ سوتنے پر ڈور میں بلا کی تیزی اور برانی آجاتی تھی۔ اور جہاں تک پتنگ اڑانے کا تعلق ہے، مرزا جی ہمیشہ پتنگ آدھا اڑاتے تھے۔ وہ جس پتنگ کو بھی ہاتھ میں لیتے، اسے نوشیرواں اتارتے تھے۔ نوشیرواں اس پتنگ کو کہا جاتا تھا جو مسلسل نو پتنگیں کاٹ کر صحیح سلامت واپس اتر آئے۔
عزیزانِ من، پتنگ بازی کی اس دلچسپ و رنگین شوق کی ابتدا کیسے ہوئی اور اس کا مؤجد کون ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔ چناں چہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں لکھا ہے کہ پتنگ کو ’’آرچی ٹاس‘‘ نامی ایک شخص نے چار صدیاں قبل ’’ٹارنیٹم‘‘ میں ایجاد کیا تھا، لیکن ایشیا کے باشندوں اور دوسری اقوام میں اس کا رواج نامعلوم مدت سے چلا آ رہا ہے۔ مشرقی ایشیا میں پتنگ بازی ہمیشہ ایک دلچسپ قومی مشغلہ اور تفریح رہی ہے۔ البتہ یورپ میں اس کا شوق بہت کم رہا ہے۔
اہلِ کوریا اس کی وجۂ ارتقا اپنے ایک سپہ سالار سے منسوب کرتے ہیں کہ صدیوں پہلے اس نے اپنی فوج کا دل بڑھانے اور ان میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے ایک قندیل نما پتنگ اڑائی تھی، جس سے سپہ سالار نے فوج کو یہ باور کرایا کہ قدرت کی طرف سے یہ کوئی نیا ستارہ طلوع ہوا ہے، جو ان کے واسطے فتح و نصرت کی بشارت لے کر آیا ہے ۔ کوریا ہی کے ایک اور جرنیل نے پتنگ کو میکانیکل یعنی جرثقیل کی ضروریات کے لیے استعمال کیا اور اس کے ذریعے ایک ندی کے پاٹ کو معلوم کرکے اس پر پل تعمیر کیا۔
مشرقی ایشیائی ممالک میں پتنگ بازی سے غایت درجہ شوق کا اظہار کیا جاتاہے۔ خاص طور پر چینی اور جاپانی پتنگیں مختلف وضع قطع کی ہوتی ہیں۔ کسی کی شکل پرندے کی، تو کسی کی اژدھے کی ہوتی ہے۔ چین میں نویں مہینے کا نواں دن یومِ پتنگ کہلاتاہے۔ اس روز ہر طبقے کے لوگ چھتوں، ٹیلوں اور میدانوں میں جاکر پتنگ اڑاتے ہیں۔ ایشیا میں ایسی نغمہ ریز پتنگیں بھی بنتی ہیں جن کے دلکش نغمے فضا میں گونجتے سنائی دیتے ہیں۔ یہ سریلی تانیں ہوا میں اڑتے وقت ان سوراخوں سے نکلتی ہیں جو پتنگ کے کانپ ٹھڈوں میں نہایت صنعت اور کاریگری سے کیے جاتے ہیں۔
اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط میں پتنگ کو سائنٹفک ضروریات کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا ۔ چناں چہ ’’بنجامن فیلکن‘‘ نے اپنے قابلِ یادگار پتنگی تجربے کی آزمائش کی۔ پتنگ کے ذریعے اس نے ہوا سے بجلی کو پکڑا اور روشنی کی برقی خصوصیات کا مظاہرہ کیا، اور اسی طرح پتنگ کا ایک مفید طریقِ استعمال سائنس کے روز افزوں فوائد کے لیے انیسویں صدی میں منصہ شہود پر آیا۔ حوادثِ سماوی، باد و برق و باراں کے لیے بھی پتنگ کا استعمال کیا گیا۔ امریکہ اور یورپ کے میٹرولوجیکل اداروں نے پتنگ کا باقاعدہ استعمال موسمی حرارت ہی معلوم کرنے کے لیے نہیں کیا، بلکہ اس کے ذریعے طوفان یا باد و باراں کا بھی قبل از وقت پتا لگا لیا۔ ایسی پتنگوں کو ’’باکس کائٹس‘‘ کہتے ہیں جس کا موجد’’ایل ہارگریو‘‘ تھا۔
ملکی دفاع کے لیے بھی پتنگ کو استعمال میں لایا جاچکا ہے مثلاً دور دراز فاصلے پر پڑی فوج کو کوئی اشارہ دینا، جھنڈا اُڑانا یا خاص نشان کے ذریعے اپنی فوج کو ہدایات بھیجنا۔ کم از کم دو میل کے فاصلے تک پتنگ کار آمد ثابت ہوا ہے۔
طبی نقطۂ نظر سے بھی پتنگ بازی آنکھوں کے لیے مفید ہے۔ اس کی بدولت بینائی میں اضافہ اور نظر میں تیزی پیدا ہونے کے تجربات ظہور میں آئے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ پتنگ صرف اطبا، سائنس دانوں اور جرنیلوں کے ہی نہیں بلکہ عشق زادوں کی بھی بہت کام آئی ہے۔ عشق زادے بعض اوقات ڈور کو رشتۂ الفت بنا کر عشق ومحبت کے ڈورے بھی ڈالتے تھے۔جب عاشق و محبوب کا دل اس ریشمی ڈور کی گلجھٹیوں میں الجھ جاتا اور نکالے نہ نکلتا، تو یہی ڈور اور پتنگ، تارِ برقی سے بڑھ کر اپنا کام دکھاتے۔ محبت کے نامہ و پیام آتے جاتے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی اور بلا ناغہ محبت کے پیچ لڑائے جاتے۔ ایسے پیچ جو کبھی کٹنے کا نام ہی نہ لیتے تھے ۔
عزیزانِ من، قصہ مختصر یہ کہ چنگیزی ناک، تیموری داڑھی، مغلئی ہاڑ اور شاہی خون سے متصف ہونے کے باوجود مرزا چپاتی ساری زندگی پتنگیں اڑاتے رہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بزرگوں کا قائم کیا ہوا سلطنت روند ڈالا گیا اور کئی سو سالہ شہنشاہیت پامال کی گئی، اور یہ بے بس تماشائی بنے رہے۔ تیمور، بابر اور عالمگیر اپنے کارناموں سے یاد کیے جاتے ہیں اور ان کا یہ فرزند ایک ’’پتنگ باز‘‘ کا ٹائٹل جیت کر دنیا سے اس حالت میں رخصت ہوا کہ پتنگیں بیچ بیچ کر ہی اپنا پیٹ پالتا تھا۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔