پاکستان اور ترکی دیرینہ تعلقات تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ جدید ترکی کے قیام سے قبل سلطنتِ عثمانیہ سے مسلم امہ کی خصوصی والہانہ وابستگی تاریخ کا سنہرا باب رہا ہے۔ ترکی میں جدید اصلاحات کے بانی کمال اتاترک کے بعدصدر رجب طیب اردوان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ترکی اسلامی دنیا کا وہ ملک ہے، جس کی حدود بیک وقت یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً ساڑھے سات کروڑ ہے۔ اس میں جمہوری حکومت قائم ہے، جس میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 2002ء سے اب تک برسرِ اقتدار ہے۔ رجب طیب اردوان پہلے وزیراعظم تھے ، اب صدر ہیں، تاہم ترکی مختلف ادوار میں سیاسی مدوجزر کا شکار رہا ہے۔
اس وقت رجب طیب اردوان ترکی کے دسویں صدر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ رجب طیب اردوان اس وقت مسلم امہ میں بے باک و جرأت مند لیڈر کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے امت مسلمہ کے مسائل پر بروقت بیانات اور ٹھوس مؤقف کی وجہ سے مسلم اکثریتی ممالک کے عوام صدر رجب طیب اردوان کو خصوصی پذیرائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں وسعت اور مسئلہ کشمیر پر ترکی کے مؤقف نے رجب طیب اردوان کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ ترکی نے پاکستان کو بیس برس قبل بھی اقتصادی تعاون کی پیش کش کی تھی کہ اگر تجارت میں کامیاب نہ بھی ہوسکے، تو کوئی بات نہیں۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
جدید ترکی نے 20 برسوں میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے خود کو ترقی یافتہ مملکت میں شامل کیا۔
ترکی نے جہاں خود ماڈرن ملک ثابت کرنے کی کوشش کی، تو دوسری جانب اسلامی روایات کو واپسی کے عمل کو بھی شروع کیا۔ نئی مساجد کی تعمیر، مذہبی گفتگو کی آزادی اور خطے میں ترکی کے اہم کردار کو امریکہ سمیت عالمی قوتوں نے تسلیم کیا۔
ترک صدر اردوان پاکستان کے کئی دوروں کے دوران 2009ء،2012ئ اور 2016ء میں قومی اسمبلی میں خطاب کرچکے ہیں۔ 14 فروری 2020ء کو ترک صدر چوتھی بار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے مخاطب ہوئے۔واضح رہے کہ صدر اردوان کے علاوہ ترکی کے 7ویں صدر ’’کنعان ایورین‘‘ بھی قومی اسمبلی سے خطاب کرچکے تھے۔
ترکی پاکستان کو سفارتی سطح پر کئی مواقع پر تعاون بھی فراہم کرچکا ہے۔ بالخصوص جب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے پیرس اجلاس میں بھارتی لابنگ کی وجہ سے بلیک لسٹ میں جانے کے خدشات زیادہ ہوگئے تھے، تو ترکی نے پاکستان کو ووٹ کرکے بلیک لسٹ میں جانے سے روکا اور ایف اے ٹی ایف سے مزید مہلت ملی۔
ترکی اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم 7 ارب ڈالرز سے زائد پر محیط ہے، جب کہ پاکستان سے 60 کروڑ ڈالر کے کم و بیش، لیکن ترکی نے اپنے اصولی موقف کو قائم رکھا، اور باہمی تجارت کو متاثر ہونے نہیں دیا۔ یہ ترکی کی کامیاب سفارت کاری کے سبب ممکن ہوا۔
ترکی نے روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر بھی جرأت مندی سے آواز اٹھائی، اور روہنگیائی مسلمانوں کی امداد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ترکی نے مسلم امہ کے مسائل کی نشان دہی کے لیے ٹھوس اور سخت مؤقف رکھا، جس کی وجہ سے کئی عرب ممالک ترکی کی بعض پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے۔
ترکی اس وقت کئی بین الاقوامی معاملات اور جنگوں میں الجھا ہوا ہے۔ اندرونِ ملک ترکی میں طیب رجب اردوان کے خلاف بغاوت کے بعد ترک صدر نے قومی پالیسی میں تبدیلی لائی۔ خاص طور پر فتح اللہ گولن کی تحریک کے خلاف ترکی نے سخت اقدامات کیے۔ پاکستان نے ترکی کا ساتھ دیا اور ایسی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کی جو ترکی میں بے امنی کا سبب بن رہی تھیں۔ شام، لبنان جنگ میں ترکی کے کردار کو سراہا اور کرد ملیشیا باغیوں کے خلاف آپریشن میں بھی ترک مؤقف کی حمایت کی۔ شام اس وقت شام میں کرد ملشیاباغی گروپ کے خلاف نبر آزما ہے۔ جہاں شامی حکومت اور امریکہ کے ساتھ تنازعات میں اضافہ ہوا ہے، لاکھوں مہاجرین کو یورپ میں داخل ہونے سے روکنے کے علاوہ سیف زون کی تیاری کے لیے ترکی نے بڑا قد م اٹھایا، جس کے باعث ترکی اس وقت شام کی خانہ جنگی میں الجھ گیا ہے۔
پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارتی اور دفاعی تعلقات، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اور خطے میں امن، لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے خاتمے، افغانستان میں دیرپا امن کے لیے مشترکہ کوششوں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ تعاون پر اتفا ق رائے پایا جاتا ہے ۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔
وزیراعظم نے ’’اسلام فوبیا‘‘ کے خلاف ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کا مشترکہ نیوز چینل شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اہم اقدام پر پیش رفت کی ضرورت ہے ۔ تاکہ مغرب میں اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے مسلم اکثریتی ممالک اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ اسی طرح پاکستان اور ترکی متعدد شعبوں میں شریک ِ کار بن کر گہرے تعلقات استوار کرنے کے ساتھ ساتھ مشترکہ فوائد بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ خصوصاً تعلیم، صحت، تجارت اور زراعت کے شعبوں میں۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان کو زرعی بنیادوں پر دوبارہ استوار کرکے معاشی بحرانوں سے نکلا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ترکی کی زرعی ترقی و صنعت سازی سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
تعلیم او رتحقیق کے شعبوں بالخصوص ڈاکٹر اور آئی ٹی میں ترکی کی پچھلی تین دہائیوں میں تیز رفتار ترقی کو سمجھنے سے پاکستان بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔پاکستان کی پالیسی سازوں کو یہ بات مد نظر رکھنا ہوگی کہ کسی بھی مملکت کی ترجیحات میں سب سے پہلے اپنے ملک کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے ۔ کوئی ملک دنیا سے الگ تھلگ رہ کر اپنے مسائل حل نہیں کرسکتا۔
ہمارے سامنے ترکی کی مثال ہے کہ اُس نے دفاعی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف امریکہ پر تکیہ نہیں کیا، بلکہ دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے روس سے میزائل سسٹم خریدا اور نصب بھی کردیا۔ امریکہ نے دباؤ بڑھایا اور ترکی کو ایف35 طیاروں کی فراہمی کو روک کر تربیتی پروگرام بھی معطل کردیا، لیکن ترکی نے اپنی دفاعی پالیسی کے لیے کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کیا۔ اسی طرح ملکی خارجہ اور داخلی پالیسی میں بھی ترکی ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔
ترکی نے ملکی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کے لیے اپنی ترجیحات کو اہمیت دی۔
ترک صدر طیب اردوان کی پاکستان آمد اور چوتھے دورے کے ثمرات سے فوائد حاصل کرنا اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے ملائیشیا، ترکی وِژن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
قارئین، توقع ہے کہ پاکستا ن اور ترکی کے درمیان تعلقات میں جہاں ایک طرف ثقافتی مضبوطی پیدا ہوگی، تو دوسری جانب تجارتی تعلقات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آئے گا۔ کیوں کہ یہ دونوں ممالک کی عوام کے حق میں بہتر فیصلہ ہوگا۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔