اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں نائجر میں اُو آئی سی کے وزرائے خارجہ کا ایک ایسااجلاس برپا ہونے کو ہے، جو اس تنظیم کے عملاً ’’خاتمہ بالخیر‘‘ پر بھی منتج ہوسکتاہے۔
افسوس! اس کا سبب کشمیر بننے جا رہا ہے۔گذشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدامات کے بعد پاکستان نے بھرپورکوشش کی کہ اُوآئی سی وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس طلب کرکے کشمیریوں سے اظہارِیکجہتی اور بھارتی اقدامات کی مذمت کی جائے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس اجلاس کے انعقاد کے راستے میں روڑے اٹکائے، حتیٰ کہ پاکستان کو غیر معمولی طور پر سخت مؤقف اختیارکرنا پڑا۔
پاکستان روزِاوّل سے اُو آئی سی کے معاملات میں گہری دلچسپی لیتارہا۔ تنظیم کے کلیدی فیصلے پاکستان کی مشاورت اور رضامندی سے کیے جاتے رہے، تاہم گذشتہ کچھ برسوں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی لیڈرشپ نئی اور نسبتاً نوجوان نسل کو منتقل ہوئی، توصورت حال بدلنا شروع ہوگئی۔
نوجوان عرب لیڈر شپ روایتی تعلقات اور اسلامی بھائی چارے کے حوالوں کو ازکارِ رفتہ کی سوچ قراردیتی ہے۔ ان کا کاروباری ذہن ہے۔ ایران اور ترکی کے ابھرتے ہوئے اثر و نفوذ سے خوفزدہ یہ لیڈر خطے میں سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات سے سفارتی اور سیاسی اثرورسوخ حاصل کرنے کی جستجو میں ہیں۔
شوکت عزیز جن دنوں وزیراعظم تھے، ایک مجلس میں اس طالب علم کو ان کی گفتگو سننے کا موقع ملا۔ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ چین اور عرب ممالک میں لیڈر شپ تبدیل ہوچکی ہے۔ منافع اور سیاسی مفاد کی عینک سے وہ دنیا کو دیکھتے اور تعلقات کو پرکھتے ہیں۔ ان سے روایتی دوستی اور محبت کا تقاضہ یا توقع سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ اور تو اور ان ممالک کے اسرائیل کے ساتھ بھی تجارتی اور سفارتی تعلقات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کا سبب کاروبار میں وسعت، سیاسی اور سفارتی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے سوا کچھ اور نہیں۔
اگرچہ بھارت اور عرب ممالک کے درمیان عشروں پر محیط تجارتی اور کاروباری تعلقات ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں ان تعلقات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ دو طرفہ سرمایہ کاری میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا۔ محض سعودی عرب میں 27 لاکھ بھارتی شہری بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔28 ارب ڈالر کا تجارتی حجم ہے۔ سعودی عرب بھارت کا چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کا دوطرفہ تجارتی حجم چار ارب ڈالر سے کم ہے۔
متحدہ عرب امارات بھارت کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ تجارت اور کاروبارکا حجم پچاس ارب ڈالر کو چھو رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی متحدہ عرب امارات کے ساتھ تجارت آٹھ ار ب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
غالباً اسی پس منظر میں گذشتہ برس مارچ میں عرب امارات نے بھارتی وزیرخارجہ کو اُوآئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس میں مدعو کیا۔ پاکستان میں عرب امارات کے فیصلے پر کہرام مچ گیا۔ قومی اسمبلی میں ہونے والے بحث مباحثے میں امارات کے اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان کی مخالفت اور ناراضی کے باوصف گذشتہ برس مارچ میں بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج اُوآئی سی کے اجلاس میں شریک ہوئیں۔چھے اگست کومتحدہ عرب امارات کے بھارت میں تعینات سفیر نے بھارتی اقدام کو مسترد کرنے کے بجائے اسے ایک انتظامی قدم قرار دیا۔ اگست ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو متحدہ عرب امارات کاسب سے بڑا سول ایوارڈعطا کیا گیا۔
عرب امارات کے اس اقدام نے اہلِ پاکستان کے چودہ طبق روشن کردیے اور انہیں احساس ہوا کہ
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
عرب ممالک نے کم ہی کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی براہِ راست حمایت کی ہے۔ وہ اُو آئی سی کے پلیٹ فارم سے کشمیر پر پیش کی جانے والی قراردادوں کی چار و ناچار حمایت کرتے ہیں۔
سعودی عرب کشمیر پر اُو آئی سی کے رابط گروپ کا رکن ہے، لیکن اس کا پس منظر بھی بہت دلچسپ ہے۔ 1994ء میں اوآئی سی کے کاسابلانکا سربراہی اجلاس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کنگ عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کرانہیں کشمیر پر ہونے والے اجلاس میں لے گئیں۔
موجودہ سعودی اور امارتی لیڈرشپ کو خدشہ لاحق ہے کہ اگلے چند عشروں میں سائنٹیفک ریسرچ تیل کا متبادل متعارف کرانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ آمدن کے انہیں غیر روایتی ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔ بھارت کی مارکیٹ اور ابھرتی ہوئی معیشت انہیں سرمایہ کاری اور کاروباری شراکت داری کا ایک موقع فراہم کرتی ہے، جسے وہ گنوانا نہیں چاہتے۔
ایران کی حکومت اگرچہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن برقراررکھنے کی آرزو مند ہے لیکن ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای، پارلیمنٹ اور میڈیا نے کشمیرکے مسئلہ پر جان دار مؤقف اختیار کیا۔ تمام تر کاروباری دباؤ کے باوجود ملائیشیا کے و زیراعظم مہاتر محمد نے کشمیر پر اپنے نقطۂ نظر میں لچک پیداکرنا گوارا نہ کی۔
اُوآئی سی کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے مسائل اور بالخصوص فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے کوششیں کرنا تھا۔ اب بتدریج احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے بنیادی مسائل کے بارے میں اُو آئی سی کے کرتادھرتا متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا درکنار، واضح نقطۂ نظر بھی اختیار کرنے سے گریزاں ہیں۔ چناں چہ متبادل پلیٹ فارم کی بازگشت سنائی دینا زور پکڑ رہی ہے۔
ملائیشیا ہی میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب میں اُو آئی سی کے کردار پر مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اُو آئی سی کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر یک زبان نہیں ۔ ہم بٹے ہوئے ہیں۔کشمیر پر اُو آئی سی کا اجلاس تک نہیں بلایا جاسکا۔ اُو آئی سی کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ آچکا ہے۔ پاکستان کی سرگرم شمولیت کے بغیر اُوآئی سی ایک علامتی اتحاد کے طور پر بھی اپنا وجود برقرارنہیں رکھ سکے گا۔
اُوآئی سی کو بچانے کی خاطر ممکن ہے کہ نائجر کے اجلاس میں کشمیر پر لولی لنگڑی قرارداد منظور کرلی جائے، جو کافی نہیں۔کشمیر کے حالات اس سے بہت بڑھ کر تقاضا کرتے ہیں۔
سعودی وزیرِ خارجہ کا شاہ محمود قریشی کو فون اور کشمیر پر تبادلۂ خیال اور ساتھ دینے کا بیان ایک مثبت پیش رفت ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ اُوآئی سی شکست وریخت کا شکا رنہ ہو، اور مسلم امہ کا یہ پلیٹ فارم قائم رہے۔
تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ عرب ممالک کا موجود ہ رویہ اور حکمت عملی نہ بدلی، تو یہ پلیٹ فارم خودبخود تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیاجائے گا۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔