دوپہر کے وقت تھوڑی دیر آرام کرنا سنتِ رسولؐ ہے۔ اب اس کا اعتراف سائنس نے بھی کیا ہے۔ امریکہ میں انسانی عادات کے ماہرین نے ڈیٹا کی بنیاد پر ریسرچ کی اور معلوم کیا کہ دنیا میں زیادہ تر غلط فیصلے دوپہر دو بجے سے چار بجے کے درمیان ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ اس وقت قوتِ فیصلہ کی طاقت میں کمی ہوجاتی ہے۔ یہ ایک حیران کن ریسرچ تھی۔ اس ریسرچ نے قوت فیصلہ کی تمام تھیوریز کو ہلا کر رکھ دیا۔ ماہرین جب وجوہات کی گہرائی میں اُترے، تو پتا چلا کہ ہم انسان سات گھنٹوں سے زیادہ ایکٹیو نہیں رہ سکتے۔ ہمارے دماغ کو سات گھنٹے بعد فون کی بیٹری کی طرح ’’ری چارجنگ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اگر اسے ری چارج نہیں کریں گے، تو غلط فیصلے کرکے انجامِ بد سے دوچار ہوں گے۔ ماہرین نے ڈیٹا کا مزید تجزیہ کیا، تو معلوم ہوا کہ اگر صبح جاگیں، تو دن کے دو بجے تک غالباً سات گھنٹے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا دماغ آہستہ آہستہ سن ہوجاتا ہے، اور ہم غلط فیصلے کرجاتے ہیں۔ ہم اگر بہتر فیصلے کرنا چاہتے ہیں، تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد فیصلے بند کردینا چاہیے۔ نیند کے یہ تیس منٹ یا آدھا گھنٹا قیلولہ ہمارے دماغ کی بیٹریاں چارج کردے گا اور ہم اچھے فیصلوں کے قابل ہوجائیں گے۔
ابتدا میں یہ ریسرچ امریکی کابینہ کے ارکان، سلامتی کے بڑے بڑے اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کی گئی۔ وہ اپنے فیصلوں کی روٹین تبدیل کرتے رہے۔ ماہرین نتائج نوٹ کرتے رہے اور یہ نظریہ سچ ثابت ہوتا رہا۔ ماہرین نے اس کے بعد ’’ورکنگ آورز‘‘ یعنی اوقاتِ کار کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ آفس کے پہلے تین گھنٹے فیصلوں کے لیے بہترین قرار دیے گئے۔ دوسرے تین گھنٹے فیصلوں پر عمل کرنے کے لیے وقف کردیے گئے اور آخری گھنٹے فائل ورک کلوزنگ اور اکاؤنٹنگ وغیرہ کے لیے مختص کردیے گئے۔ سی آئی اے نے بھی اس تھیوری کو اپنے سسٹم کا حصہ بنایا۔
ماہرین نے کہا کہ ایک فقیر سے جب پوچھا گیا کہ تم لوگ مانگنے کے لیے صبح کیوں آتے ہو اور شام کے وقت کیوں غائب ہوجاتے ہو؟ فقیر نے جواب دیا کہ لوگ بارہ بجے تک سخی ہوتے ہیں، اور شام تک کنجوس ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں صبح زیادہ بھیک صبح کے وقت ملتی ہے۔ ماہر کہتا ہے کہ مجھے اس وقت اس کی بات سمجھ نہیں آتی تھی، لیکن مَیں نے جب دو بجے کی ریسرچ دیکھی، تو مجھے فقیر کی بات سمجھ آگئی۔
آپ نے بھی نوٹ کیا ہوگا کہ آج سے پچاس سال پہلے لوگ زیادہ خوش ہوتے تھے۔ یہ شامیں خاندان کے ساتھ گزارتے تھے، سپورٹ بھی کرتے تھے، کیوں؟ کیوں کہ اس وقت زیادہ تر قیلولہ کیا جاتا تھا۔ لوگ دوپہر سستاتے تھے، مگر انسان نے جب موسم کو کنٹرول کرلیا اور یہ سردی کو گرمی اور گرمی کو سردی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا، تو اس نے قیلولہ بند کردیا۔ چناں چہ لوگوں میں خوشی کا مادہ بھی کم ہوگیا، اور ان کی قوتِ فیصلہ کی ہیئت بھی بدل گئی۔ یقینا سرورِ کائناتؐ کی سنتوں میں ہی دین دنیا کی بھلائی ہے۔
نوٹ! مدارس کے روزانہ اوقاتِ کار (ڈیلی ٹائم ٹیبل) میں عموماً مشکل مضامین جیسے انگریزی، ریاضی، سائنس اولین کلاسوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد قومی زبان اُردو پھر اسلامیاب اور تفریح کے بعد مقامی زبانیں، ڈرائنگ اور فزیکل ایجوکیشن کی کلاسیں ہوتی ہیں، جب کہ دو بجے سے پہلے عموماً چھٹی ہوتی ہے۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔