سوات میں بولی جانے والی زبانیں

قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے زبانوں کو اپنی قدرت کی نشانیاں کہا ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی ایک وجہ زبان بھی ہے۔ زبان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کا استاد خود خدا وندِ کریم ہے۔
وطن عزیز پاکستان ایک کثیراللسان ملک ہے۔ پاکستان میں مختلف لہجوں سمیت 72 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ زبانوں کے لحاظ سے پاکستان کے شمالی حصے بہت زرخیز ہیں۔ ضلع سوات میں بنیادی طور پر چھے زبانیں بولی جا تی ہیں، یعنی ان زبانوں کے بولنے والے یہاں کے مستقل باشندے ہیں۔ ان میں ’’پشتو‘‘، ’’گوجری‘‘، ’’توروالی‘‘، ’’گاوری‘‘، ’’اوشوجو‘‘ اور’’ قشقاری‘‘ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اَباسین کوہستان سے بھی بہت سارے لوگ یہاں آکر آباد ہوئے ہیں، اور وہ جو زبان بولتے ہیں، ماہرینِ لسانیات نے ان کو، ’’کوہستی‘‘، ’’خیلی‘‘، ’’مایوں‘‘، ’’میر‘‘ اور ’’شوتون‘‘ وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا ہے۔ اس طرح سوات کوہستان کے لوگ اُردو بھی بولتے ہیں اور دفتری کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے۔
’’پشتو‘‘ سوات کی سب سے بڑی اور اکثریتی زبان ہے۔ دوسری زبان والے لوگ بھی پشتو بول سکتے ہیں، کیوں کہ یہاں کے تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر اور تجارتی منڈیوں میں پشتو بولی جاتی ہے۔ سوات میں پشتو زبان کے آغاز کا صحیح تعین ابھی تک نہیں ہو ا ہے، یعنی یہ پتا نہیں کہ یہ زبان سوات میں کب سے بولی جا رہی ہے؟
بدھ مت کے بعد دسویں صدی کے اختتام تک یہاں ہندو شاہی دور کا سکہ چلتا تھا۔ گیارہویں صدی کے اوائل میں محمودِ غزنوی کے لشکر نے سوات پر حملہ کیا ہے۔ اس لشکر کے ساتھ چند افغان قبائل کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے۔ اس طرح یہاں مسلمانوں کی آمد کے بعد جن لوگوں نے زیادہ حکومت کی ہے، وہ تاریخ میں ’’سواتی‘‘ یا ’’دھگان‘‘ قوم کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔
سولہویں صدی کے آغاز میں جب یوسف زئی سوات میں آہستہ آہستہ داخل ہوئے، تو کافی وقت تک یوسف زئی اور سواتی اکھٹے رہتے تھے۔ بعد میں یوسف زئیوں نے سواتیوں کو یہاں سے بے دخل کرکے ہزارہ کی طرف دھکیل دیا، لیکن بعض سواتی تقریباً 120 سال تک سوات کے پہاڑی علاقوں میں رہتے رہے۔ پھر بعد میں سید جلال الدین کی سر پرستی میں پکھلئی پر حملہ کر کے ادھر مقیم ہوگئے۔
سواتیوں کی اصل نسل اور زبان کے بارے میں بھی متضاد آرا سامنے آئی ہیں۔ تواریخ حافظ رحمت خانی، خلاصۃالانصاب اور چند دیگر بنیادی مآخذ میں لکھا گیا ہے کہ یہ سواتی نسلاً پشون نہیں ہیں، بلکہ تا جک ہیں اور ان کی زبان ’’گبری‘‘ اور ’’دری‘‘ ہے۔ یوسف زئیوں کی آمد کے بعد ہمیں سوات میں باقاعدہ طور پر پشتو زبان و ادب کے آثار نظر آتے ہیں، اور اس طرح یہ زبان ریاستِ سوات میں خوب ترقی کر کے سر کاری زبان کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ جب سوات ایک باقاعدہ ریاست کی شکل اختیار کر گیا، تو اس وقت ’’فارسی‘‘ ریاست کی سرکاری زبان تھی۔ 1937ء سے پشتو باقاعدہ طور پر سرکاری زبان قرار دی گئی۔ اگرچہ میاں گل عبدالودود نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ ریاست کی باگ ڈور سنبھالتے ہی اس نے پشتو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا، اور تمام رجسٹرات، اسٹامپ پیپر اور دیگر کاغذات پشتو میں چھاپے گئے، لیکن میاں گل عبدالودود نے ریاست کی باگ ڈور 1917 ء میں سنبھالی ہے، اور ریاستِ سوات کا ریکارڈ دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ جون 1937ء سے جون 1947ء تک پشتو سوات کی سرکاری زبان رہی ہے۔ جون 1937ء سے پہلے کے رجسٹرات اور دیگر ریکارڈ فارسی زبان میں لکھا ہوا ملتا ہے، اور اس طرح جون 1974ء کے بعد کا ریکارڈ ’’اردو‘‘ میں ہے۔
ریاستی دور میں پشتو کی بہت سی کتابیں سرکاری اخراجات پر چھپ کر لوگوں میں بلامعاوضہ تقسیم ہوا کرتی تھیں۔ ان کتب میں فتاویٰ ودودیہ، تاریخِ سوات، عروجِ افغان، انوارِ سہیلی اور تاریخِ ہندوستان وغیرہ شامل ہیں۔
ریاستِ سوات کو پشتون تاریخ میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں پشتو کو سرکاری زبان کادرجہ دیا گیا تھا۔ افغانستان میں بھی 1937ء میں پشتو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا، لیکن یہ حکومت کی واحد سرکاری زبان نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ’’دری‘‘ زبان بھی شامل تھی۔
پشتو کے علاوہ یہاں کی دوسری اہم زبان ’’گوجری‘‘ ہے، جسے مقامی لوگ ’’گوجرو‘‘ بھی کہتے ہیں۔ گوجری زبان بولنے والے سوات میں تقریباً ہر جگہ موجود ہیں۔ اس قوم میں بعض لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں، اور خانہ بدوش ہوتے ہیں۔ ان کو ’’اَجڑ‘‘ کہتے ہیں۔ بعض بھیڑ بکریوں کے پالنے کے علاوہ زراعت کا کام بھی کرتے ہیں، لیکن اصل میں یہ دونوں قسم کے لوگ ’’گوجر‘‘ ہیں، اور ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ محمد پرویش شاہین صاحب نے لکھا ہے کہ ’’اجڑ‘‘ ایک علاحدہ قوم ہیں، اور ان کی زبان ’’اجڑی‘‘ہے، لیکن یہ بات بالکل غلط ہے، اور یہ دونوں ایک ہی قوم کے لوگ ہیں۔ اس طرح ’’اجڑی‘‘ نام کی کوئی علاحدہ زبان نہیں ہے۔ البتہ اگر کہیں کہیں اس زبان میں معمولی تبدیلی نظر آئے، تو یہ کوئی اچنبھا نہیں کہ ہر زبان میں دو تین کلومیٹر بعد ضرور کوئی تبدیلی نظر آتی ہے، لیکن اِک آدھ لفظ کی تبدیلی کو ہر گز نئی زبان نہیں ماننا چاہیے۔
تیسری اہم زبان ’’توروالی‘‘ ہے۔ اس زبان کا تعلق ہند آریائی زبانوں کی ’’دردی‘‘ شاخ سے ہے۔ یہ زبان مدین سے شمال کی طرف ’’اسریت‘‘ اور ’’چیل‘‘ میں بولی جاتی ہے۔ بحرین اس کا مرکز ہے۔ 1987ء کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ساٹھ ہزار لوگ یہ زبان بولتے ہیں۔ اس زبان پر فریڈرک بارتھ، جارج مورگنسٹرائن، جان بڈلف، گرئرسن اور کلوین رنچ وغیرہ محققین نے کام کیا ہے۔
سوات کی چوتھی اہم زبان ’’گاوری‘‘ ہے۔ اس کو ماہرینِ لسانیات نے ’’گاروی‘‘، ’’کالامی‘‘، ’’کالامی کوہستانی‘‘ وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا ہے۔ یہ زبان بھی ہند آریائی زبانوں کی ذیلی شاخ ’’درد‘‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان ’’کالام‘‘، ’’اوشو‘‘، ’’تھل لاموتی‘‘، ’’راجکوٹ‘‘ اور ’’دشوا‘‘ میں بولی جاتی ہے۔ ان مختلف علاقوں میں بولے جانے والے لہجوں میں 10 سے 25 فی صد تک فرق موجود ہے۔ اس کے علاوہ ’’گاوری‘‘ ایک علاحدہ لہجے کے ساتھ دیر کوہستان کے کلکوٹ کے علاقے میں بولی جاتی ہے، جو ’’کلکوٹی‘‘ کہلاتی ہے۔ کالام اور دیگر علاقوں کی زبان اور ’’کلکوٹی‘‘ میں تقریباً 31 فی صد لہجوں کا فرق پایا جا تا ہے۔ اس زبان پر بھی بہت سے مقامی اور غیر مقامی محققین نے کام کیا ہے۔ مقامی محققین میں ’’محمد زمان ساگر‘‘ نے اس زبان پر کافی کام کیا ہے۔
پانچویں اہم زبان ’’اوشوجو‘‘ ہے۔ یہ زبان وادئی چیل کے علاقے بشیگرام میں بولی جاتی تھی۔ 1992ء کے اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار افراد یہ زبان بولتے تھے، لیکن ’’گاوری‘‘ زبان کے ماہر، کالام کے رہنے والے ’’محمد زمان ساگر‘‘ نے تین سال پہلے اسلام آباد میں ایک ورکشاپ کے دوران میں راقم کو بتایا تھا کہ اس زبان کے بولنے والوں میں صرف ایک عمر رسیدہ شخص با قی ہے، اور اس کے علاوہ دیگر تمام لوگوں نے ’’توروالی‘‘ زبان کو اپنالیا ہے، اور اب وہ اپنی زبان کو مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں۔
یہ زبان ’’توروالی‘‘ زبان کے ساتھ 35 فی صد مشابہت رکھتی ہے۔
چھٹی اہم زبان ’’قشقاری‘‘ ہے۔ یہ زبان وادئی سوات کے ’’اوشو‘‘ کے علاقے میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کا تعلق ہند آریائی زبانوں کے شمال مغربی ’’درد‘‘ شاخ سے ہے۔ اصل میں یہ ’’کھور‘‘ زبان کا ایک لہجہ ہے۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔