خطرات میں گِھرا پاکستان

مشرق وسطیٰ خاص طور پر ایران اور سعودی عرب جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ یہ جنگ صرف ان دو ممالک یا ایران اور امریکہ تک محدود رہنے والی نہیں، بلکہ تمام خلیجی ممالک کو یہ آگ جھلسا دے گی۔ ترکی بھی غالباً غیر جانب دار نہیں رہ پائے گا۔ اسرائیل تو پہلے ہی ایران پر حملے کے لیے پر تول رہا ہے۔
پاکستان کی مشرقی سرحد پر بھارت مسلسل پاکستان کو سبق سکھانے اور آزاد کشمیر پر حملہ کرنے بلکہ قبضہ کرنے کے عزائم کا اظہار کر رہا ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نرو نے دہلی میں کہا کہ پارلیمان، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو واپس لینے کے لیے حکم دے، تو فوج کارروائی کرے گی۔ یہ بیان محض حال ہی میں فوج کی کمان سنبھالنے والے بھارتی فوجی سربراہ ہی کا نہیں بلکہ ستمبر میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ ’’ہم جلد آزاد کشمیر پر بھی قبضہ کر لیں گے۔‘‘
کنٹرول لائن پر عملاً جنگ کا سا سماں ہے۔ گزشتہ برس ساٹھ سے زائد شہری شہید اورتین سو کے قریب زخمی ہوئے۔ سکولوں اور کالجز کو بھی نہیں بخشا گیا۔ کنٹرول لائن پر لگ بھگ ایک لاکھ لوگ بستے ہیں۔ وہ نہ صرف فائرنگ سے متاثر ہیں بلکہ انہیں نقلِ مکانی کرنا پڑی ہے۔ کوٹلی اور نیلم سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پونچھ اور بھمبر بھی محفوظ نہیں۔ آزاد کشمیر گزشتہ دس بارہ برسوں میں پاکستانی سیاحوں کی دلچسپی کا ایک بہت بڑا مرکز بن کر اُبھرا ہے۔ پنجاب اور کراچی سے خاندانوں کے خاندان شوق سے راولا کوٹ اور نیلم کی سیاحت کے لیے جاتے ہیں۔ پہاڑوں اور مرغزاروں پر روز و شب گزارتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں سرما کا لطف اٹھاتے ہیں۔ دو برس قبل سیاحوں کی تعداد چودہ لاکھ تک جا پہنچی تھی۔ غیر ملکی سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندیاں اٹھنے سے بیرونِ ملک سے بھی سیاحوں کی آمد و رفت شروع ہوگئی تھی۔ حکام بتاتے ہیں کہ تین سو کے لگ بھگ غیرملکیوں نے گزشتہ برس آزاد کشمیر کا سفر کیا۔ امید کی جاتی تھی کہ بیس لاکھ سیاح گزشتہ برس آزاد کشمیر کا رُخ کریں گے ۔
پانچ اگست کے بعد کشیدگی اس قدر بڑھی کہ سیاحوں کی تعداد میں معتدبہ کمی واقع ہوگئی۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف نیلم ویلی میں 330 سے زائد گیسٹ ہاؤس موجود ہیں، جن میں 20 ہزار سے زائد نوجوان خدمات سرانجام دیتے تھے۔ اب ان گیسٹ ہاؤسز کو تالے لگ چکے ہیں اور نوجوان بے روزگار ہو کر در بہ در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
کشمیریوں میں عالمی برادری سے مایوسی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ کشمیریوں کے دکھوں کا مداوا کرنے یا ان کی آواز میں اپنی آواز ملانے میں بڑی حد تک ناکام رہی۔ یہ مایوسی عسکری گروہوں کے نقطۂ نظر کو تقویت پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے، جو طویل عرصے سے بھارت کا مقابلہ گوریلا کارروائیوں کے ذریعے کرنے کے علمبردار ہیں۔ بدقسمتی کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں کشمیر کا مسئلہ ذرائع ابلاغ میں مسلسل پس منظر میں جا رہا ہے۔ اسے وہ توجہ بھی نہیں مل رہی جس کا وہ حق دار ہے۔
بدقسمتی سے امریکہ ہو یا بھارت، دونوں ممالک میں ایسی حکومتیں قائم ہیں جنہوں نے تعصب، نسل پرستی اور دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کو بطور سیاسی حربے کے استعمال کرکے اقتدار حاصل کیا ہے۔ دونوں مخالف نقطۂ نظر رکھنے والی قوموں، شخصیات اور ممالک کو محض اس لیے معطون کرتے ہیں کہ وہ مختلف سیاسی فکر یا مذہبی خیالات کے حامل ہیں۔
ایران پر امریکہ کی نظر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مرکوز ہے۔ 1953ء کی بات ہے کہ امریکیوں نے ایران کے منتخب وزیراعظم محمد مصدق کو زبردستی اقتدار سے معزول کراکر رضا شاہ پہلوی کو اقتدار سونپا۔ وزیراعظم مصدق ایک قوم پرست، لبرل اور جمہوریت پسند سیاست دان تھے، جو غیر ملکی مداخلت کے راستے میں رکاوٹ تھے۔ چناں چہ انہیں اقتدار سے نکال باہر کرنے کے لیے امریکہ نے ایران میں براہِ راست مداخلت کی۔ ردِعمل میں ایرانیوں کے ایک مؤثر طبقے نے جمہوریت، انصاف اور اسلام کے نام پر سیاسی مزاحمت کی، جو 1979ء میں انقلابِ ایران پر منتج ہوئی۔
امریکہ کا اس خطے میں "پولیس مین” کا کردار سکڑ گیا۔ گزشتہ چالیس برسوں میں ایرانیوں نے امریکہ کو دوبارہ ایران کی داخلی سیاست میں گھسنے نہیں دیا۔ اس دکھ کو وہ آج تک ہضم نہیں کر پایا۔ ایران نے شام، عراق، لبنان، فلسطین اور افغانستان میں امریکی پالیسیوں کے مغائر ایسے گروہوں کی حمایت کی جو امریکی بالادستی کو چیلنج کرتے تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برسرِاقتدار آکر ایران کو اسرائیل اور عرب اتحادیوں کی شہ پر مزید پابندیوں اور دباؤ کا شکار کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے طالبان جنہیں وہ دہشت گرد کہتے تھے، کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ ایران کے ساتھ پُرامن طریقوں سے تنازعات اور مسائل کے حل کے تمام راستہ صدر ٹرمپ نے خود مسدود کیے۔ تعاون اور اشتراک کی جو داغ بیل سابق صدر بارک اوباما نے ڈالی تھی، اس کے ذریعے عراق، افغانستان اور پورے مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے ایران بتدریج ایک شراکت دار کا کردار ادا کرسکتا تھا۔ ٹرمپ کی غلط حکمت عملیوں نے ایران کو شام میں جمہوریت نواز تحریک کی مدد کرنے کے بجائے بشار الاسد کی صف میں لاکھڑا کیا۔ روس اور ایران نے مل کر امریکہ کی حمایت یافتہ جمہوریت نواز تحریک کو ناکام کرایا۔ یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ حکومت کو یمنی باغیوں کے ذریعے ناکوں چنے چبوائے۔
اب جو منظر نامہ اُبھر رہا ہے، اس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ایران اور عرب ممالک کے درمیان تنازعات میں روز بہ روز شدت آتی جائے گی۔ امریکہ بہادر اب الیکشن میں داخل ہونے والا ہے، جہاں ٹرمپ مسلمانوں سے نفرت اور ایران کے خلاف کارروائی کا پرچار کرکے سفید فام امریکی نسل پرستوں کا ووٹ حاصل کرلے گا۔ مودی بھی فروری میں دہلی کے الیکشن میں ایک بار پھر دھاڑے گا۔ کئی ایک اور بھی ریاستی الیکشن مودی اور امیت شاہ کو زہر اگلنے کا موقع فراہم کریں گے۔ ہر طرف جنگ و جدل کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان خود کو اس آگ میں جھونکنے سے مسلسل گریز کر رہا ہے کہ جنگ مسائل اور تنازعات کا حل پیش نہیں کرتی بلکہ انہیں مزید الجھا دیتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان بنیادی طورپر جنگ مخالف شخصیت ہیں۔ ان کی لیڈرشپ میں یہ حکمت عملی بہت مناسب نظر آتی ہے کہ خطے میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان سرگرم ہو نہ کہ تنازعات کو ہوا دینے میں۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔