دنیا کے مختلف ممالک میں 26 دسمبر 2019ء کو سورج گرہن دیکھا گیا۔ سورج یا چاند گرہن کیوں ہوتا ہے؟ اس کے مختلف اسباب ذکر کیے جاتے ہیں۔ سائنسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ زمین کے گرد چاند گردش کرتا ہے اور چاند زمین کی طرح تاریک ہے ، وہ سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ جب وہ سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے، تو سورج کی روشنی زمین پر پہنچنے سے رک جاتی ہے، جس سے سورج گرہن واقع ہوتا ہے۔ جب زمین درمیان میں آجاتی ہے اور وہ چاند پر روشنی نہیں پڑنے دیتی، تو چاند گرہن واقع ہوتا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں سمجھا جاتا تھا کہ کسی شخص کی موت یا کسی بڑے حادثہ پر سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے۔ بر صغیر میں لوگوں کا خیال ہے کہ اس موقعہ پر حاملہ عورتیں چھری وغیرہ کا استعمال نہ کریں۔ کیوں کہ سورج یا چاند کے گرہن ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ میں موجود بچے کا ہونٹ وغیرہ کٹ جاتا ہے، حالاں کہ حقیقت سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں، نہ شرعی اعتبار سے اور نہ ہی سائنس کے اعتبار سے۔ یہ صرف لوگوں کا وہم وگمان ہے اور جاہلانہ بات ہے۔ ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اگر واقعی اس موقعہ پر حاملہ عورت کے لیے چھری وغیرہ کا استعمال کرنا نقصان دہ ہوتا، تو پوری کائنات کے نبی حضرت محمد مصطفی صلعم اللہ کے حکم سے اس کے متعلق احکام ضرور بیان فرماتے۔ ایک مرتبہ آپ ؐ کی حیاتِ مبارکہ میں جب سورج گرہن ہوا، اسی دن آپؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور بعض لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ گرہن ان کی موت کی وجـہ سے ہوا ہے، تو آپ ؐ نے اس کی تردید کرکے بیان کیا کہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کی موت کی وجـہ سے یہ گرہن نہیں ہوتے۔ نبی اکرمؐ نے اس موقعہ پر لمبی نماز پڑھی۔ نبی اکرمؐ کی تعلیمات کے مطابق آج تک پوری امت مسلمہ کا یہی معمول ہے کہ اس موقعہ پر نماز پڑھی جائے، اللہ کا ذکر کیا جائے اور دعاکی جائے۔
دنیا میں ایسا عظیم الشان نظام ہے کہ وقت پر سورج کا طلوع ہونا، غروب ہونا، چاند اور کروڑوں ستاروں کا خلا میں موجود ہونا، ہواؤں کا چلنا، سورج اور چاند سے روشنی کا ملنا، زمین کے اندر بے شمار خزانے اور زمین میں بڑے بڑے پہاڑوں کا موجود ہونا، بادلوں سے بارش کا ہونا، زمین میں پیداواری کی صلاحیت کا ہونا، پھلوں میں طرح طرح کے ذائقہ کا پیدا ہونا، پانی اور آگ کا موجود ہونا، اسی طرح چرندوں، درندوں اور پرندوں کی بے شمار مخلوقات کا موجود ہونا سب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کو پیداکرنے والی کوئی نہ کوئی ذات ہے۔ ورنہ یہ سارا نظام کیسے اور کیوں قائم ہوگیا؟ آج ہم ایک چھوٹا سا کام بھی کرتے ہیں، تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ نیز اس کے لیے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے اور پھر وہ ایک نہ ایک دن ختم بھی ہوجاتا ہے۔ بڑی بڑی حکومتوں کے چودھری ایک گز زمین میں دفن کردیے گئے۔ مضبوط قلعے کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے، اور حویلیاں ویران ہوگئیں۔ یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے جو نہ صرف انس وجن کا خالق ہے، بلکہ پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے، اور صرف وہ ہی اس پوری کائنات کے نظام کو چلانے والا ہے۔ ہم سب اس کے بندے ہیں۔ دنیا کی بے شمار چیزیں نہ سمجھنے کے باوجود ہم تسلیم کرلیتے ہیں۔ اسی طرح بات سمجھ میں آئے یا نہیں، ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ اتنی بڑی کائنات خود بخود نہیں بن سکتی، اور اتنا بڑا نظام خود بخود قائم نہیں رہ سکتا۔ سورج وچاند کا کیسا عجیب وغریب نظام ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں آیا۔ جس طرح وقتی طور پر اللہ کے حکم سے سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ یہ سورج اللہ کے حکم سے مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا، جیسا کہ آج کے سائنس دانوں نے بھی اس کے امکان کو تسلیم کرلیا ہے۔ حالاں کہ شریعتِ اسلامیہ نے چودہ سو سال قبل ہی اس کو بتا دیا تھا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ پوری دنیا ختم ہوجائے گی اور پھر دنیا کے وجود سے لے کر تمام انسانوں کو ان کے کیے ہوئے اعمال پر جزا یا سزا دی جائے گی۔ غرض یہ کہ سورج یا چاند کے گرہن لگنے میں کسی مخلوق کا دخل ہے، اور نہ ہی پوری کائنات مل کر سورج یا چاند کے گرہن کو روک سکتی ہیں۔ اس لیے سورج یا چاند کے گرہن کے وقت صرف اللہ تعالیٰ کی ہی پناہ مانگی جائے ۔اسی کے سامنے جھکا جائے، اور اسی کے در پر جاکر پیشانی ٹیکی جائے۔ کیوں کہ وہی اس کائنات کا خالق بھی ہے اور مالک ورازق بھی۔ نبی اکرمؐ سورج گرہن لگنے پر مسجد میں داخل ہوکر نماز میں مصروف ہوئے تھے۔ اس لیے اگرایسے موقعہ پر باہر نکلنے سے بچا جائے اور براہِ راست سورج کو نہ دیکھا جائے، تو یہ عمل احتیاط پر مبنی ہوگا۔کیوں کہ سائنسی اعتبار سے بھی اس نوعیت کا احتیاط مطلوب ہے، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ ہمارا تو ایمان ہے کہ جو تکلیف یا آسانی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقدر میں ہے، وہ مل کر ہی رہے گی۔ اگرچہ تکلیف سے بچنے اور آسانی کے حصول کے لیے تدابیر و اسباب ضرور اختیار کرنے چاہئیں۔
لہٰذا جب بھی سورج گرہن ہوجائے، تو مسلمانوں کو چاہیے کہ خالقِ کائنات کی طرف متوجـہ ہوں۔ دو رکعت نماز اذان واقامت کے بغیرباجماعت ادا کریں، اور اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگیں۔ بعض علما کی رائے ہے کہ دو رکعت سے زیادہ بھی ادا کرسکتے ہیں۔ قرأت آہستہ پڑھنی چاہیے۔ اگرچہ بعض علما کی رائے میں بلند آواز کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ چاند گرہن کے موقعہ پر انفرادی نماز پڑھنی چاہیے۔ اگرچہ بعض علما کی رائے کے مطابق جماعت کے ساتھ بھی پڑھنے کی گنجائش ہے۔ اُن اوقات میں یہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے جن اوقات میں نماز پڑھنا منع ہے۔ اگرچہ بعض علما کی رائے ہے کہ اوقاتِ مکروہہ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔
سورج گرہن (Solar Eclipse) کے موقعہ پر پڑھی جانے والی نماز کو صلاۃ الکسوف، جب کہ چاند گرہن (Lunar Eclipse) کے موقعہ پر پڑھی جانے والی نماز کو صلاۃ الخسوف کہتے ہیں۔ اس نمازمیں قرأت، رکوع اور سجدہ وغیرہ کو اتنا لمبا کرنا چاہیے کہ نماز پڑھتے پڑھتے ہی گرہن ختم ہوجائے۔ کیوں کہ نبی اکرمؐ سے اسی طرح ثابت ہے، جس طرح سے دورکعت نماز پڑھی جاتی ہے، اُسی طریقہ سے یہ نماز پڑھی جائے گی۔ اگرچہ بعض علما کا مؤقف ہے ہر رکعت میں دو رکوع کیے جائیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ علمائے احناف کی رائے ہے کہ اس موقعہ پر دو رکعات عام نماز کی طرح پڑھی جائیں اور سورج گرہن کے موقعہ پر جماعت کے ساتھ لیکن آہستہ قرأت سے، جب کہ چاند گرہن کے موقعہ پر انفرادی نماز ادا کی جائے۔ ہاں اگر کسی جگہ مثلاً سعودی عرب میں جماعت کے ساتھ ادا ہورہی ہو، تو اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ اِن دونوں نمازوں میں لمبے قیام ورکوع اور سجدے کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی کیا جائے اور خوب دعائیں مانگی جائیں۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا۔ آپؐ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے (تیزی سے) مسجد پہنچے۔ صحابۂ کرام آپ کے پاس جمع ہوگئے۔ آپؐ نے انھیں دو رکعت نماز پڑھائی اور گرہن بھی ختم ہوگیا۔ اس کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کی موت کی وجـہ سے یہ گرہن نہیں ہوتے(بلکہ زمین اور آسمان کی دوسری مخلوقات کی طرح ان پر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم چلتا ہے، اور ان کی روشنی وتاریکی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے) اس لیے جب سورج اور چاند گرہن ہو، تو اس وقت تک نماز اور دعا میں مشغول رہو، جب تک ان کا گرہن ختم نہ ہوجائے۔ چوں کہ رسولؐ اللہ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات (اسی دن) ہوئی تھی اور بعض لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ گرہن ان کی موت کی وجـہ سے ہوا ہے۔ اس لیے رسولؐ اللہ نے یہ بات ارشاد فرمائی۔ (بخاری، باب الصلاۃ فی کسوف القمر)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا۔ نماز سے فارغ ہوکر آپؐ نے فرمایا: ’’سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے گرہن نہیں ہوتے۔ اے لوگو! جب تم کو یہ موقعہ پیش آئے، تو اللہ کے ذکر میں مشغول ہوجاؤ، دعا مانگو، تکبیر وتہلیل کرو، نماز پڑھو اور صدقہ وخیرات ادا کرو۔ (مسلم، باب صلاۃ الکسوف)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا جب سورج یا چاند گرہن ہوجائے، تو اسی کیفیت پر نماز پڑھو جس طرح تم نے یہ آخری نماز پڑھی ہے (نماز فجر کی طرح)۔ (نسائی ۔ باب صلاۃ الکسوف)
حضرت قبیصہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسولؐ اللہ کے ہمراہ مدینہ منورہ میں تھے کہ سورج گرہن ہوگیا۔ آپ گھبراکر جلدی سے باہر نکلے اپنے کپڑے کو کھنچتے ہوئے اور دو رکعت خوب لمبی پڑھیں۔ (نسائی، باب صلاۃ الکسوف)

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔