ترقی یافتہ ممالک میں اپاہج اور معذور لوگوں کو خصوصی مراعات میسر ہوتی ہیں اور زندگی کے ہر پہلو میں ان کے ــسکون و آرام کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح حکومت والدین کو اپنے معذور بچوں کی دیکھ بھال کے عوض خاطر خواہ معاوضہ دیتی ہے، تاکہ بچوں کی دیکھ بھال میں کوئی کمی نہ آسکے۔ اس کے بر عکس وطن عزیز میں معذوروں کو محض نام ہی کا ’’اسپیشل‘‘ کہا جاتا ہے اور اصل زندگی میں ان اسپیشل لوگوں کو لولا لنگڑا اور کانا جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو معاشرے کی ناکارہ ترین مخلوق سمجھا جاتاہے۔ کچھ لوگ ایسے معذوروں کو عذاب الٰہی گردانتے ہیں اور ان کو دیکھ کر فوراً ان کے ہاتھ کانوں کی جانب لپک جاتے ہیں۔ معذور لوگوں کو اگر توجہ، وقت اور احترام دیا جائے، تو یہ بھی معاشرے کے کارآمد شہری بن سکتے ہیں۔ اس کی مثال معذور برطانوی سائنسدان اور مار طبیعات اسٹیفن ہاکنگ ہے، جسے دنیا بھر میں آئن سٹائن کے پائے کا سائنسداں مانا جاتا ہے۔
اسی طرح کچھ ایسی پیدائشی بیماریاں ہیں کہ ان کا نہ صرف علاج موجود ہے بلکہ اگر صحیح اور ٹھیک ماہرین کے مشوروں پر بروقت عمل کیا جائے، تو بغیر کسی آپریشن کے بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچایا جاسکتاہے۔
ٹیڑھے یا مڑے ہوئے پاؤں:۔ انہیں انگریزی میں Clubbed feet یا Telepies بھی کہتے ہیں۔ اس قسم کے پیدا ہونے والے بچوں کے پاوؤں کو بغیر آپریشن اور بالکل مفت سیدھا کیا جاسکتا ہے۔ ایسے بچوں کو بالکل نارمل بچوں کی طرح چلنے پھرنے کے قابل بنایاجاسکتا ہے۔ پاکستان میں ایسے سیکڑوں لوگ آج بھی موجود ہیں جن کا ایک یا دونو ں پاؤں مڑے ہوئے ہیں اور وہ معذوری کی زندگی گزارتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال مڑے ہوئے پاوؤں کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، لیکن تعلیم اور شعور کی کمی کی اور عطائی ڈاکٹروں کی بے رحمی کی وجہ سی سیکڑوں بچے معذور ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک اس کی کوئی خاص وجہ سامنے نہیں آئی لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کی کہ اسکی جینیاتی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
اسپین میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر پونسٹی نے ایک نہایت آسان اور دلچسپ طریقہ کار کے ذریعے ایسے بچوں کا علاج شروع کیا اور اسی وجہ سے اس طریقہ کار کو دنیا بھر میں ’’پونسٹی میتھڈ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار میں مڑے پیروں کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے پیر چھے سے آٹھ ہفتے کے لئے پلاسٹر میں بند کر دئیے جاتے ہیں اور ہر ہفتہ نیا پلاسٹر چڑ ھایا جاتاہے۔
کیونکہ اس عمر میں بچوں کے پاؤں بہت نرم ہوتے ہیں، اسی لئے چار سے چھے ہفتوں میں ہی پاؤں ناقابل یقین حد تک بالکل سیدھے اور نارمل ہوجاتے ہیں۔اس کے بعد بچوں کو ایسے جوتے پہنائے جاتے ہیں جس کے درمیان لوہے کا راڈ لگا ہوتاہے، تاکہ پیر واپس نہ مڑنے پائیں۔ کافی عرصہ تک بچے کو اسی طرح کے جوتے پہننے پڑتے ہیں۔ آخر میں صرف رات کو ہی سوتے وقت پہننے پڑتے ہیں۔
پونسٹی طریقہ کار پورے دنیا میں رائج ہے، لیکن پاکستان میں یہ ابھی تک اتنا عام نہیں اور میرے علم کے مطابق صرف کراچی میں جناح ہسپتال اور انڈس ہاسپٹل میں اس کا مفت علاج کیا جاتاہے۔ انڈس ہسپتال اس لحاظ سے بہت متحرک ہے اور خیراتی اداروں کی مدد سے ان کا ایک پراجیکٹ ’’پہلا قدم‘‘ (pehlaqadam.org) مفت علاج مہیا کرتا ہے ۔اس کے علاوہ مزید معلومات کے لئے پونسٹی کے آفیشل ویب سائٹ ponseti.info وزٹ کریں۔