وکی پیڈیا کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے شہرۂ آفاق ناول و افسانہ نگار شوکت صدیقی 16 دسمبر 2006ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
وہ 20 مارچ 1923ء کو موجودہ ہندوستان کے علاقہ لکھنو میں پیدا ہوئے تھے۔ان کو اپنے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل ہوئی۔
ان کی ابتدائی زندگی کچھ یوں رہی کہ انہوں نے 1946ء میں سیاسیات میں ایم اے کیا۔ بعد میں 1950ء کو کراچی آ گئے ۔ کراچی میں 1952ء میں آپ نے ثریا بیگم سے شادی کی۔ ناولوں اور متعدد کہانیوں کے مجموعوں کے خالق کے علاوہ ان کو اردو کا ایک ممتاز صحافی بھی تسلیم کیا گیا تھا۔ متعدد نامور صحافی ان سے صحافت سیکھنے کا اعتراف کرتے ہیں۔ آپ کئی ہفت روزوں اور روزناموں سے وابستہ رہے ۔ تاہم عملی زندگی کا آغاز 1944ء میں ماہنامہ ’’ترکش‘‘ سے کیا۔ وہ روزنامہ ’’مساوات‘‘ کراچی کے بانی ایڈیٹر، روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور اور روزنامہ ’’انجام‘‘ کے چیف ایڈیٹر بھی رہے ۔ ایک عرصہ تک وہ ہفت روزہ ’’الفتح‘‘ کراچی کے سربراہ بھی رہے جس میں کئی ادبی صحافیوں نے کام کیا جنہیں آج پاکستان کے بڑے صحافیوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔
انہوں نے درج ذیل اعزازات حاصل کیے :
آدم جی ادبی ایوارڈ، 1960ء۔
تمغائے حسنِ کارکردگی، 1997ء۔
کمالِ فن ایوارڈ، 2002ء۔
ستارۂ امتیاز، 2003ء۔
ان کے افسانوی مجموعوں میں تیسرا آدمی 1952ء، اندھیرا اور اندھیرا 1955ء، راتوں کا شہر 1956ء اور کیمیا گر 1984ء شامل ہیں۔
ان کے ناولوں میں کمیں گاہ 1956ء، خدا کی بستی 1958ء، جانگلوس 1988ء اور چار دیواری 1990ء میں شائع ہوئے ۔
’’جانگلوس‘‘ ان کا ایک طویل ناول ہے جس کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس ناول کو ’’پنجاب کی الف لیلیٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ ان کے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کے 46 ایڈیشن شائع ہوئے اور یہ اردو کا واحد ناول ہے جس کا 42 دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔