وکی پیڈیا کے مطابق مشہور مرثیہ گو میر انیس 10 دسمبر 1874ء کو لکھنؤ میں انتقال کرگئے۔
وہ میر مستحسن خلیق کے صاحبزادے اور معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن ان کے دادا تھے۔ وہ 1802ء کو فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔
اُن کے مرثیوں کی تعدا د 12 سو کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ مجلّہ نقوش انیس نمبر میں بہ تحقیقِ عمیق میر انیس کے 26 نایاب اور غیر مطبوعہ مراثی طبع کیے گئے ہیں۔ محققین کے مطابق ان کے کئی مرثیے ابھی تک غیر مطبوعہ حالت میں مختلف بیاضوں کے اندر موجود ہیں۔
میر انیس نے روایتی مرثیہ کے علاوہ سلام، قصائد، نوحہ اور رباعیات کا بھی کثیر ذخیرہ چھوڑا ہے۔ رباعیاتِ انیس کی تعداد محققین کے مطابق 6 سو کے برابر ہے۔ میر انیس کے کئی مراثی میں معجزاتی کرشمہ کاری کا عنصر ملتا ہے۔ آپ کے ایک نواسے میر عارف کی تحریری یادداشت سے پتا چلتا ہے کہ 1857ء کے اواخر میں میر انیس نے 157 بند یعنی 1182 مصرعوں کا یہ شاہکار مرثیہ ’’جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے‘‘ ایک ہی شب میں لکھا اوراپنے خاندان کے عشرۂ مجالس میں پڑھا۔
میر انیس کے تین فرزندان تھے میر نفیس، میر جلیس اور میر سلیس اور یہ تینوں منجھے ہوئے شاعر و مرثیہ نگار تھے۔ والد کے بعد میر نفیس کا مرثیہ اعلیٰ پائے کی مرثیہ نگاری میں شمار ہوا ہے۔