تازہ ہندو کلینڈر اور تاریخی اسلامی عمارات

بھارت کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا متنازعہ فیصلہ دے کر ثابت کیا کہ ’’ہندو توا مہم‘‘ میں مودی سرکار کے ساتھ چاروں ستون ایک صفحے پر ہیں۔ مودی سرکارکی پشت پر بھارتی فوج، فرنٹ لائن پر معتصب میڈیا اور مسلم دشمن فیصلوں پر عدلیہ کا ساتھ دینا ثابت کرتا ہے کہ مودی سرکار ’’ہند و انتہا پسندی‘‘ کے فروغ کے لیے ریاست کے چاروں ستونوں کے سہارے کھڑی ہے۔ جب کسی غلط نظریے پر ریاست کے چار ستونوں میں توازن نہ رہے، تو انصاف کی امید کرنا بے وقوفی ہوتی ہے۔ بابری مسجد کے حوالے سے جس طرح تاریخ بدل کر فیصلہ سنایا گیا، مضحکہ خیز فیصلے نے سب کو حیران کردیا۔
بھارتی سپریم کورٹ ایک جانب اعتراف کررہی ہے کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی، نیز بابری مسجد شروع سے مسلمانوں کے پاس ہے۔ اس کے باوجود مسجد کے بدلے پانچ ایکڑ کا ٹکڑا دینے کا فیصلہ کرکے بابری مسجد کو حکومت ٹرسٹ کے حوالے کیے جانا مکمل طور پرجانب دارنہ فیصلہ مانا جارہا ہے۔
بابری مسجد سے دہلی کی شاہی مسجد کی تاریخ یاد آگئی جب مغل حکمراں سردار نجیب اللہ کے دور میں مرہٹوں نے رام کی مورتی لگانے کا خواب دیکھا تھا۔ مغل حکمراں کمزور تھے، اس لیے انہوں نے افغانستان کے بہادر سپوت احمد شاہ ابدالی سے مدد طلب کی۔ مرہٹوں کی جانب سے دہلی کی شاہی مسجد میں رام کی مورتی کے اعلان سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کو بدترین شکست سے دوچار کیا، اور1761ء پانی پت کی تیسری لڑائی سے معروف اس جنگ میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے جس میں زیادہ تعداد ہندو مرہٹوں کی تھی۔ابدالی فوج کا سامنا نہ کرسکنے والی سدا سوراؤ بھاؤ کی مرہٹہ فوج کا خواب پورا نہ ہوسکا اور دہلی کی شاہی مسجد پر رام کی مورتی لگانے میں ناکام رہے۔ احمد شاہ ابدالی نے دہلی میں شہزادہ علی گوہر کو تخت پر بٹھایا اور دو ماہ بعد واپس چلے گئے۔ اس کے بعد ایک افراتفری و انتشار کی داستا ن ہے کہ مغل حکمراں اپنی حکومت کو سنبھال نہ سکے، اور انگریزوں نے مغلوں کو شکست دے کر ہندوستا ن پر قبضہ کرلیا۔ انتہا پسندہندوؤں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا، اس کی تاریخ گواہ ہے اور اسی سیاہ تاریخ میں ’’آریس ایس‘‘ اور ’’ہندو مہا سبھا‘‘ جیسی انتہا پسند تنظیموں نے جنم لیا۔
مسلمانوں سے انتقام کی آگ میں جھلسنے والے انتہا پسند ہندوؤں نے ہر موڑ پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی و جبر سے کام لیا۔ یہ سلسلہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد مزید شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ ’’ہندو توا‘‘ کی یہ خواہش آج بھی ’’آر ایس ایس‘‘ انتہا پسند تنظیم کا خواب ہے، جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے مسلم ناموں پر بنے شہر اور مشہور مقامات کے نام تبدیل کیے گئے۔ بابری مسجد کو شہید کرکے احاطے میں مندر بنا کر رام کی مورتی رکھ دی گئی، اور ہندو انتہا پسندوں کا یہ دعویٰ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں کہ وہ دہلی کی شاہی مسجد پر بھی قبضہ کرکے اُسے مندر بنانا چاہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر، جموں و لداخ پر قبضے کے بعد مودی سرکار وہاں بھی مسلمانوں کے نام پر موسوم جگہوں کے نام تبدیل کرنا شروع کررہی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے کئی سو برس حکومت کی، لیکن مذہبی رواداری اور ہندو مذہب سمیت کسی کو زبردستی مسلمان بنانے یا غیر مسلموں کے مذہبی مقامات کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے۔ مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے انتہا پسندوں نے فسانے تراشے، انہیں لوٹ مار کرنے والے ڈاکو سمیت کئی جھوٹے قصے گاڑنے شروع کردیے۔ بھارت نے نئی نوجوان نسل کو اپنی فلمی صنعت کے ذریعے بھی گمراہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کی تازہ مثالوں میں متنازعہ فلمیں ’’پدماوتی‘‘ اور ’’پانی پت‘‘ جیسی فلمیں ہیں۔ ’’پداماوتی‘‘ میں مسلم حکمراں علاؤ الدین خلیجی کے کردار کو جس طرح مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے، وہ ایک بدترین عمل تھا۔ اب یہی عمل ’’پانی پت‘‘ نامی فلم میں احمد شاہ ابدالی کے کردار کے ساتھ کیا جا رہا ہے، جس پر پختون حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے، یعنی یہ کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ بھارت کی فلمی صنعت بھی مودی سرکار کی ’’ہندو توا پالیسی‘‘ پر چل رہی ہے۔ جس کی وجہ سے شدت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔
احمد شاہ ابدالی کی ’’پانی پت لڑائی‘‘ کا مقصد اگر ہندوستان کی فتح ہوتا، تو احمد شاہ ابدالی ہندوستان پر قابض رہتا، لیکن افغانستان میں ابدالی سلطنت کی بنیاد رکھنے والی غیور و بہادر ابدالی قبیلے نے ہندو مرہٹہ کو سبق اس لیے سکھایا تھا، کیوں کہ دہلی تک پہنچ جانے والے ہندو مرہٹہ ’’شاہی مسجد‘‘ کی جگہ پر مندر قائم کرنا چاہتے تھے۔
مسجد کو مندر بنانے کی کئی افسوس ناک مثالیں تاریخ ملتی ہیں، جس میں 17ویں صدی میں مغل کے زوال کے بعد رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کرکے شاہجہاں کے دور میں بنائی گئی ’’موتی مسجد‘‘ کی جگہ موتی مندر بنا دیا تھا۔ انگریز دور میں یہ مسجد پھر مسلمانوں کے حوالے کی گئی۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت نے کرتار پور راہدری کو سکھ کیمونٹی کے لیے کھول کر بہت بڑا اقدام کیا ہے، جہاں ایک طرف اگر ہندو انتہا پسندوں کو مذہبی رواداری کا سبق دیا گیا، تو دوسری طرف اس ایشو کو بھی نہیں اٹھایا گیا کہ ماضی میں سکھوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا؟ رنجیت سنگھ کی جانب سے موتی مسجد پر قبضہ اس کی ایک اہم مثال ہے۔ اس کے علاوہ جہان جہاں سکھ حکومت قائم ہوئی، وہاں مغل بادشاہوں کا بدلہ مسلمانوں سے لیے جانے کی تاریخ یہ سبق بھی سکھاتی ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنا ریاست کی پالیسی ہے۔
مارچ کے مہینے میں ہندو انتہا پسندوں کی تنظیم ہندو مہاسبھا کی علی گڑھ شاخ نے ایک ہندو کلینڈر جاری کیا، جس میں مسجدوں ا ور مغل دور کی یادگار عمارتوں کا نام بدل کر لکھا گیا ہے۔ اس کلینڈر میں تاج محل سمیت 7 مساجد اور دورِ مغلیہ کی عمارتوں کی تصاوی لگائی گئی ہیں۔ اس حوالہ سے ہندو مہا سبھا کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام عمارتیں درحقیقت مندر ہیں۔
ہندو نئے سال کے کلینڈر میں آگرہ کے تاج محل کو ’’تیجو مہالیے مندر‘‘ بتایا گیا ہے۔ وہیں مدھیہ پردیش کی کنول مولا مسجد کو ’’بھوج شالا‘‘اور بنارس کی گیان واپی مسجد کو ’’وشو ناتھ مندر‘‘ بتایا گیا ہے۔
مذکورہ کلینڈر میں قطب مینار کو بھی مندر قرار دیتے ہوئے اسے ’’وشنو استمبھ‘‘ اور جونپور کی اٹالا مسجد کو ’’اٹلا دیوی کا مندر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
ایودھیا کی شہید ہو چکی بابری مسجد بھی اس کلینڈر میں شامل ہے، جسے ’’رام جنم بھومی‘‘ دکھایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کلینڈر میں مسلمانوں کے مذہبی مقام ’’مکہ مکرمہ‘‘ کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ ہندو مہا سبھا نے اس کو اپنے کلینڈر میں ’’مکّیشور مندر‘‘ ظاہر کیا ہے۔
اس معاملے پر مہاسبھا کے قومی جنرل سکریٹری پوجا شکن پانڈے کا کہنا ہے کہ ہم نے نئے سال کے موقعہ پر ’’ہون‘‘ کا اہتمام کیا ہے اور اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا عہد لیاگیا ہے۔ پوجا نے کہا کہ ’’ہمیں معلوم ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہندو راشٹر کے لیے پُرعزم ہیں۔ اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے یہ کلینڈر جاری کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 1921ء میں ہندو مہا سبھا قائم ہوئی اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک شروع کی گئی۔ ڈاکٹر مونجے کا کہنا تھا کہ 70 ملین مسلمان جن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے 220 ملین ہندوؤں کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں میں تنظیم کے مراکز بنائے گئے جہاں انتہا پسند ہندو نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف منظم کرنے کے لیے ورزشوں، لاٹھی، خنجر، تلوار اور بندوق استعمال کرنے کی تربیت دی جانے لگی۔
مودی سرکار کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی تنظیمیں سرگرم ہیں۔ بھارت میں 2021ء تک مسلمانوں کو ختم کیے جانے کے اعلانات برسرِعام کیے جاتے ہیں۔ مسلم لاز میں مسلمانوں کی مرضی کے بغیر تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ بات صرف اسلامی شعائرتک محدود نہیں رہی، بلکہ مسلمانوں کی بقا و سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ جس کی ایک بھیانک شکل بنگال میں لاکھوں مسلمانوں کی شہریت ختم کرکے انہیں ملک بدر کرنے یا مذہب تبدیل کرنے کی بھیانک سازش بھی منظر عام پر آچکی ہے۔
امتِ واحدہ باہمی اختلافات و فروعی مفادات کی وجہ سے منتشر ہے جس کا فائدہ مسلم دشمن قوتیں اٹھا رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک اپنے اختلافات ختم نہیں کرسکتے، تو اس بات پر تو اتفاق لاسکتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جہاں جہاں ظلم و ستم ہو رہا ہے اور اسلامی شعائر کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، وہاں امتِ واحدہ بن کر جائز حقوق کے لیے آواز اُٹھائیں۔ اگر کمزور مسلمانوں کے لیے مسلم اکثریتی ممالک نے متفقہ حکمت عملی نہیں اپنائی، تو یہ نفرت کا سیلاب آگے پھیلتا جائے گا اور کسی نہ کسی صورت مسلم اکثریتی ممالک کے لیے بھی پریشانی و انتشار کا سبب بنے گا۔ اس چنگاری کو آگ بننے سے روکنے کے لیے اللہ کی رسی کو سب کو مل کر تھامنا ہوگا۔
کیوں کہ یہی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔