لکھنویت سے مراد شعر و ادب میں وہ رنگ ہے جو لکھنؤ کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا۔ اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اُردو شاعری اور دہلوی شاعری سے مختلف ہے۔
جب لکھنؤ مرجع اہلِ دانش و حکمت بنا، تو اس سے پہلے علم و ادب کے دو بڑے مرکز شہرت حاصل کرچکے تھے جو کہ دکن اور دہلی تھے، لیکن جب دہلی کا سہاگ لُٹا اور وہاں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا، تو اس شہر کے اہلِ علم نے دہلی کی گلیوں کو چھوڑنا شروع کیا جس کی وجہ سے فیض آباد اور لکھنؤ میں علم و ادب کی محفلوں نے فروغ پایا۔
لکھنؤ کے نمائندہ شعرا شیخ غلام علی ہمدانی مصحفیؔ، سید انشاء اللہ خاں انشاءؔ، شیخ قلندر بخش جرأت، خواجہ حیدر علی آتشؔ اور شیخ امام بخش ناسخؔہیں۔
دبستانِ لکھنؤ کا اثر دہلی کے آخری دور کے شعرا غالبؔ، مومنؔ اور ذوقؔ پر بھی نمایاں ہے۔
نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
پیام بر نہ میسر ہوا، تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
وہ جانِ جاں نہیں آتا، تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
(ماہنامہ ’’جہانگیر ورلڈ ٹائمز‘‘ ، ماہِ ستمبر 2019ء، صفحہ 88 سے انتخاب)