وکی پیڈیا کے مطابق اردو کے مایہ ناز شاعر، بے مثل مفکر، یکتا ئے روزگار اور طنز و مِزاح کی روایت کو آگے بڑھانے والے اکبر الہ آبادی16 نومبر 1846ء کو الہ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔
ان کا اصل نام سیداکبر حسین رضوی اور تخلص اکبرؔ تھا۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدارس میں پائی اور محکمۂ تعمیرات میں ملازم ہوگئے۔ 1869ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1870ء میں ہائی کورٹ کی مسل خوانی کی جگہ ملی۔ 1872ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ 1880ء تک وکالت کرتے رہے ۔ پھرمنصف مقرر ہوئے۔ 1894ء میں عدالتِ خفیفہ کے جج ہوگئے۔ 1898ء میں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا۔ 1903ء میں ملازمت سے سبک دوش ہوگئے۔ انہوں نے جنگِ آزادیِ ہند 1857ء، پہلی جنگِ عظیم اور گاندھی کی امن تحریک کا ابتدائی حصہ دیکھا تھا۔
ابتدا میں حیدرعلی آتش سے اصلاح لی۔ پھر اپنا الگ رنگ پیدا کیا۔ ان کی شہرت ظرافت آمیز اور طنزیہ اشعار پر مبنی ہے۔ مشرقیت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے سخت خلاف تھے۔ مغرب زدہ طبقے کو طنز و مزاح کی چٹکیاں لے کر راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ کلام میں مس، سید، اونٹ، کالج، گانے ، کلیسا، برہمن، جمن، بدھو میاں مخصوص اصطلاحیں اور علامتیں ہیں۔ مخزن لاہور نے انہیں ’’لسان العصر‘‘ خطاب دیا۔ مبطوعہ کلام تین کلیات پر مشتمل ہے۔ دو ان کی زندگی میں شائع ہو گئے تھے ۔ تیسرا انتقال کے بعد شائع ہوا۔
9 ستمبر 1921ء کو 75 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔