حضرتِ علامہ محمد اقبال کا فلسفہ

علامہ اقبالؒ کے فکر و فلسفہ کا مرکزی تصور ’’خودی‘‘ ہے۔ یہی وہ مرکز ہے جس کے ارد گرد انہوں نے اپنے فکر و فن کے تانے بانے بُنے ہیں اور بقیہ تمام نقشے اور خاکے اسی ایک مرکزی نقش کو اُجاگر کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ آرزوئے عشق، عمل اور یقین وغیرہ تصورات بھی خودی کے تصور کے ضمیمے ہیں۔ بذاتِ خود علامہ اقبال نے اپنی فارسی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ ’’شاعرانہ تخیل محض ایک ذریعہ ہے کہ لذتِ حیات ’’انا‘‘ کی انفرادی حیثیت، اس کے اثبات، استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے۔ یہ لفظ بمعی غرور استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اُردو میں مستعمل ہے بلکہ اس کا مفہوم محض احساس نفس یا یقینِ ذات ہے۔‘‘
علامہ اقبال اس ’’انا‘‘ یا ’’خودی‘‘ کو انسانی زندگی کی تمام سرگرمیوں کا مرکز اور محور قرار دیتے ہیں بلکہ قومی زندگی میں ایک اجتماعی انا یا قومی انا کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ کیوں کہ اس کے ختم ہوجانے پر قوموں کی موت طاری ہوجاتی ہے۔ یعنی اگر افرادِ قوم میں اپنا ممتاز قومی تشخص، قومی روایات اور بنیادی ضروریات کی گرفت ڈھیلی پڑجائے، تو قوم اپنی آزاد حیثیت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ علامہ اقبال ’’شیطانی انا‘‘ اور ’’انسانی انا‘‘ میں بنیادی فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ شیطانی انا وہ غرورِ نفس ہے جس کی بنا پر وہ خدا کی حکم عدولی کرسکتا ہے، اور اپنے آپ کو انسان سے بالاتر قرار دیتا ہے۔ اس کے برعکس انسانی خودی کی بنیاد ’’لاالہ الااللہ!‘‘ یعنی اطاعتِ خداوندی پر ہے۔ انسان اگر اپنی ہستی کا ادراک کرے، تو وہ زمین پر خدا کا نائب اور خلیفہ ہے۔ اس کی روح امرِ ربی ہے، جس کو فنا نہیں۔ گویا وہ مامور من اللہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایک خاص مشن سونپا گیا ہے۔ اگر وہ اپنے اندر وہ صفاتِ عالیہ پیدا کرے جو اس بلند مقام کا تقاضا ہے، تو وہ اللہ جس کا یہ خلیفہ ہے، کے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ خود اس کی رضا دریافت کرے گا جیسا کہ یہ ایک شعر ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ایک دوسری جگہ پر اسی مفہوم کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بلند مقام حاصل کرنے کے لیے اپنی خودی کو مسلمان کرنا پڑتا ہے، فرماتے ہیں۔
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
اقبال ؒ واضح کرتے ہیں کہ انسانی روح جو انسان کی اصل ہے اور جو اس کی خاکی جسم کے اندر سمائی ہوئی ہے، غیر فانی ہے۔ اس پر موت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
اس وجہ سے وہ اپنے مردِ مومن کی خودی بیدار کرکے اسے موت و حیات کی تصور سے بلند کرتے ہیں، فرماتے ہیں:
حیات و موت نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود
اس خودی کو اقبالؒ زندگی کا مقصد ٹھہراتے ہوئے فرماتے ہیں:
زندگانی ہے صدف قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا ہے جو خودی کو گہر کر نہ سکے
علامہ اقبالؒ کے نزدیک خودی وہ مرکزِ حیات ہے جس سے انسان کی تمام سرگرمیاں جنم لیتی ہیں۔
نقطۂ نوری کہ نام او خودی است
زیر خاک ما شرارِ زندگی است
یعنی وہ نقطۂ نور جس کا نام خودی ہے، ہمارے خاک کے اندر زندگی کی چنگاری ہے۔ اسی خود کے بیدار ہوجانے پر علامہ اقبال کا وہ مردِ مومن وجود میں آتا ہے جس کی تعریف میں اس نے مندرجہ ذیل اشعار کہے ہیں۔
خاکی و نوری نہاد، بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگاہ دلنواز
نرم دم گفتگو، گرم دم گفتگو
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اقبالؒ اس خودی کی بیداری کے لیے بلند مقصد، عشق، قوتِ عمل اور یقینِ محکم کو لازم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔