جب ابوالاثر حفیظ جالندھری کو تالاب میں پھینکا گیا

پاکستانی افواج کے میجر جنرل فاروقی کی ’’بڑھاپے کی شادی‘‘ نہایت دھوم دھام سے ہوئی۔ راولپنڈی چھاؤنی کے تالاب کے گرد واقع سبزہ زار میں محفل آراستہ کی گئی۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری کو سہرا پڑھنے کے لیے بلایا گیا۔ حفیظ صاحب نے ’’دولہا‘‘ کی عمر کے حوالے سے طنز و مِزاح کا پیرایہ اختیار کیا۔ محفل میں شریک فوجی افسروں کو یہ بات ناگوار گزری کہ ایک شاعر ایک میجر جنرل سے تفریح لے۔ انہوں نے حفیظ صاحب کو اٹھا کر تالاب میں پھینک دیا۔ حفیظ صاحب ڈوبتے ڈوبتے بچے۔ پانی کی سطح پر صرف ان کی ٹوپی تیر رہی تھی۔ ایک رحم دل فوجی افسر کرنل مسعود احمد کے دل میں نیکی آگئی اور وہ غرقاب شاعر کو کھینچ کر کنارے پر لائے۔ حفیظ صاحب بھیکگے ہوئے کپڑوں میں بپھرے ہوئے مائیکرو فون کے قریب گئے اور ’’تم پر لعنت‘‘ ہو کہہ کر محفل سے رخصت ہوگئے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے حفیظ جالندھری کے اس شعر سے ان کی غرقابی کی تاریخ نکالی۔
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
یہ 1952ء کا واقعہ ہے۔ اگر چھے سال بعد مارشل لا کے نفاذ کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آتا، تو کرنل مسعود احمد تالاب سے صرف حفیظ صاحب کی ٹوپی نکال کر باہر لاتے اور اُسے فردوسئی اسلام کی یادگار کے طور پر قومی عجائب گھر میں محفوظ کر دیا جاتا۔
(’’مزید خامہ بگوشیاں‘‘ از ’’مشفق خواجہ‘‘ مطبوعہ ’’مقتدرہ قومی زبان پاکستان، 2012ء‘‘، صفحہ نمبر 222 سے انتخاب)