سعودی ایران تنازع، دوسرا زاویہ

آئل ریفائنری پر ڈرون حملوں کے بعد امریکی صدر نے سعودی عرب کو دفاعی تعاون کی پیشکش کی ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں تیل کی دو تنصیبات پر ڈرون حملوں کے بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے پیشکش کی کہ امریکہ سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام میں مد دینے کو تیار ہے جس پر سعودی ولی عہد نے کہا کہ مملکت اس طرح کی دہشت گردانہ جارحیت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امریکی صدر کا یہ بھی کہنا ہے:’’ہم نے سعودی عرب کی حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں کیا اور نہ ہی ہم جنگ چاہتے ہیں۔‘‘
دوسری طرف ایران کے خلاف کئی مہینوں سے امریکی جنگی بیڑا بحیرہ عرب میں آئل ٹینکرز پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور ایران کو دباؤ میں لانے کے لیے ایران کے واحد معاشی ہدف کو کمزور کرکے اپنی من پسند شرائط پر معاہدہ کرانا چاہتا ہے، لیکن ایران امریکی دھمکیوں کو خاطر میں لائے بغیر اب ایٹمی افزودگی کے معاہدے پر عدم تعاون کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوچکا ہے۔ واضح نظر آرہا تھا کہ خطے میں تیل کی سپلائی کو روکنا مقصود ہے۔ جس میں ایران اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ امریکی تیز رفتار ڈرون گرائے جانے کے بعد صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن عین وقت پر ارادہ تبدیل کردیا تھا۔ چالیس برسوں سے حالت جنگ میں رہنے کے باوجود بھی ایران کی عسکری طاقت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔جب کہ امریکہ، کسی نئی بڑی جنگ میں حصہ لینے کے لیے قوتِ فیصلے میں کمی کا مظہر نظر آرہا ہے۔ واضح رہے کہ سعودیہ اس وقت امریکی دفاعی نظام پیٹریاٹ استعمال کررہا ہے، جو یمن سے کیے جانے والے حملے روکنے میں استعمال ہو تاہے، لیکن ارامکو تنصیبات پر حملے کے بعد امریکی دفاعی نظام پر سوالیہ نشا ن اٹھ گیا ہے کہ امریکی پیٹریاٹ دفاعی نظام نامعلوم مقام سے داغے جانے والے حملے کو کیوں کر روکنے میں ناکام رہا۔ امریکہ کے مطابق سعودی دفاعی نظام کا رُخ یمن کی جانب تھا۔ اس لیے جنوب سے کیے گئے حملے کو روکا نہیں جا سکا۔
روسی صدر پوتن نے سعودی عرب کو ایس 400 دفاعی نظام فروخت کرنے کی پیش کش کی ہے، لیکن اس پیشکش کو طنزیہ قرار دیا جارہا ہے۔ پوتن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب دانش مندانہ فیصلے کرے۔ ایران کی طرح روسی دفاعی سسٹم ایس300 استعمال کرے، یا پھر ترکی کی طرح ایس400۔
انقرہ پریس کانفرنس میں ایرانی صدر حسن روحانی نے پیوٹن سے پوچھا کہ’’آپ سعودیوں کے لیے کون سا سسٹم پسند کریں گے، ایس 300 یا ایس 400؟ جس پر پیوٹن نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ آپ انہیں ہی کرنے دیں۔‘‘خیال رہے کہ امریکی دباؤ کے باوجود ایران اور ترکی نے روسی ساختہ میزائل ڈیفنس سسٹم خریدے، روس سعودی عرب کو بھی اپنا ڈیفنس سسٹم بیچنا چاہتا ہے، لیکن اب تک اس میں کامیاب نہیں ہوا اور سعودی عرب اس وقت امریکی ہتھیاروں کا بڑا خریدار ہے۔
واضح رہے کہ 5 اکتوبر 2017ء کو روس کے فوجی اور فنی تعاون سے متعلق ایک سرکاری ادارے کی ترجمان ’’ماریا وروبیوفا‘‘ نے سعودی عرب کے ساتھ ایس 400 نظام کی فروخت کا معاہدہ طے پانے کی اطلاع دی تھی، جس کے بعد 2018ء میں ایس400 میزائل دفاعی نظام کی خریدداری کے حوالے سے مذاکرات بھی ہوئے تھے۔ روس میں متعین سعودی سفیر راعد بن خالد قرملی کا کہنا تھا کہ روس سے ایس 400 میزائل دفاعی نظام کی سعودی عرب کو ترسیل کے لیے بات چیت حتمی مراحل میں ہے۔
روس اور سعودی عرب کے درمیان تب شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورے کے موقعہ پر ٹینک شکن راکٹ نظام کورنیٹ ای ایم، راکٹ لانچر نظام ٹی او ایس ون اے، خودکار گرینیڈ لانچر اے جی ایس 30 اور کلاشنکوف اے کے 107 رائفلوں کی خریداری کے بھی سمجھوتے طے پائے تھے۔ تاہم روس اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی نظام کی ترسیل ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ کیوں کہ سعودی عرب گذشتہ کئی دہائیوں سے سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا قریبی اتحادی چلا آ رہا ہے، لیکن روس کے ساتھ ان دفاعی معاہدوں اور مختلف النوع اسلحہ کی خریداری کے لیے سمجھوتوں کے بعد سے واشنگٹن میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اس لیے امریکہ نے سعودی عرب کو جدید دفاعی نظام ایس 400کے مقابلے میں اپنا جدید دفاعی نظام ’’تھاڈ‘‘ فروخت کرنے کی پیش کش کی تھی، جس پر امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان کی جانب سے 2018ء میں بیان آیا تھا کہ سعودی عرب امریکہ کی کمپنی ’’لاک ہیڈ مارٹن‘‘ سے پندرہ ارب ڈالرز مالیت کا میزائل دفاعی نظام ’’ٹھاڈ‘‘ خریدے گا۔
اس حوالہ سے امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سعودی اور امریکی حکام نے اس سودے کے سلسلے میں پیشکش اور قبولیت کی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں اور سعودی عرب کو ’’ٹرمینل ہائی آلٹی چیوڈ ایریا ڈیفنس‘‘ (ٹھاڈ) لانچروں، میزائلوں اور دیگر متعلقہ آلات کی فروخت کے لیے شرائط و ضوابط کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ اور دفاعی صنعت حالیہ ہفتوں کے دوران میں سعودی عرب کو مجموعی طور پر 110 ارب ڈالرز مالیت کے اسلحے اور دفاعی ساز و سامان کی فروخت کے سودوں کو بچانے کے لیے کوشاں رہی ہے۔محکمۂ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’’ٹھاڈ‘‘ ڈیل پر دسمبر 2016ء سے بات چیت جاری تھی اور یہ اب مکمل ہوئی ہے ۔
امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ اور دفاعی صنعت حالیہ ہفتوں کے دوران میں سعودی عرب کو مجموعی طور پر 110 ارب ڈالرز مالیت کے اسلحے اور دفاعی ساز و سامان کی فروخت کے سودوں کو بچانے کے لیے کوشاں رہی ہے۔محکمۂ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’’ٹھاڈ‘‘ ڈیل پر دسمبر 2016ء سے بات چیت جاری تھی اور یہ اب مکمل ہوئی ہے ۔
واضح رہے کہ اپریل 2017ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک متنازع بیان دیا تھا کہ اتحادی ملک سعودی عرب امریکہ سے اچھے طریقے سے پیش نہیں آرہا، اور امریکہ سلطنت کے دفاع کے لیے بھاری رقم کا نقصان برداشت کر رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب سے قبل اپنی مہم کے دوران میں بھی اسی طرح کا بیان دیا تھا۔ انہوں نے وسکونسن میں صدارتی مہم کے دوران میں کہا تھا: ’’کوئی بھی سعودی عرب سے نہیں الجھ سکتا۔ کیوں کہ ہم اس کا دفاع کر رہے ہیں، لیکن وہ ہمیں اس کی مناسب قیمت نہیں چکا رہا، اور ہمیں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔‘‘
تاہم سعودی وزیر خارجہ عادل الجبی نے انتخابی مہم کے دوران میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اسی طرح کے ایک بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سعودی عرب بطورِ اتحادی اپنی ضروریات خود پوری کر رہا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے والا سب سے اہم ملک امریکہ ہے، جس نے گذشتہ چند سالوں کے دوران میں سعودی عرب کو ایف 15 لڑاکا طیاروں اور کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم سمیت اربوں ڈالر کا دفاعی ساز و سامان فراہم کیا ہے۔ امریکہ سعودی عرب سے تیل کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔ سعودی عرب قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کی وجہ سے دنیا کو تیل کی سب سے بڑی ضروریات فراہم کررہا ہے۔ عالمی طاقتوں کی مکمل توجہ سعودی عرب کو جنگی سازو سامان کی فروخت پر مرکوز ہے۔ ایران، یمن، شام، قطر کے ساتھ سعودی عرب کے تنازع کا فائدہ مکمل طور پر عالمی طاقتیں اٹھا رہی ہیں۔
قارئین، حالیہ دنوں جس طرح سعودی آئل تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض قوتیں عرب ممالک کو مفلوج کرنا چاہتی ہیں، اور ان کے سب سے بڑے ذرائع آمدنی کو نشانہ بناکر انہیں معاشی مشکلات کا شکار کرنا چاہتی ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عرب ممالک کو اپنے وسائل جنگی ساز و سامان پر خرچ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ عرب ممالک نے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو بروقت تیار نہیں کیا، جس کی وجہ سے وہ عالمی طاقتوں سمیت حلیف ممالک کی محتاج ہوگئے ہیں۔
سعودی عرب 1979ء میں تہران کی سیاسی و ریاستی پالیسی کی تبدیلی کے بعد اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے امریکہ کے کافی نزدیک ہواتھا۔ نیز ایران کو شامل کیے بغیر 34 ممالک کے اتحاد کی بنیاد رکھی تھی، جس نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے کیے۔ ان حملوں سے عام شہریوں کی بڑی تعداد کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے سعودی عرب کو جنگی ساز و سامان پر پابندی کا عندیہ بھی دیا، تاہم دوسری جانب یمن میں موجود جنگجو ملیشیا کو ایران کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے، جس کی وجہ سے خطے میں جنگ بندی سمیت تناؤ کے خاتمے میں اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کا معقول کردار بھی نظر نہیں آتا۔ اب یہ جنگ مزید بھڑک رہی ہے اور اس کا فائدہ سعودی عرب یا ایران کو پہنچے یا نہ پہنچے، لیکن عالمی طاقتو ں کو اس جنگ سے اربوں ڈالرز کے ہتھیاروں کی فروخت کے مواقع میسر آگئے ہیں۔
دوسری طرف ایران پر امریکی دباؤ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکہ، ایران کی بلیک مارکیٹ میں آئل مصنوعات کی فروخت کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیوں کہ اس سے ایران کو اپنے دفاعی اخراجات پر قابو پانے میں دشواری ہوگی۔ گذشتہ مہینوں ایران میں مہنگائی، بے روزگاری سمیت ایرانی وسائل کو بیرونِ ملک جنگ و خانہ جنگی میں جھونکنے کے خلاف ہنگامہ آرائی اور احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے، جس کا الزام ایران نے امریکہ پر عائد کیا تھا کہ امریکہ، ایران کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ تاہم ان احتجاجی مظاہروں سے ضرور یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایرانی عوام معاشرتی مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں بھی عالمی اور امریکی پابندیوں سے آزادی کی ضرورت ہے، لیکن اس حوالے سے ایرانی ریاست کے سخت مؤقف و مختلف ممالک میں جنگجو ملیشیاؤں کی پشت پناہی سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید گھمبیر اور الجھتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر سعودی عرب اور ایران تنازع ’’جنگ‘‘ میں بدلتا ہے، تو پھر ایران کے ساتھ ترکی اور روس کھڑے ہوں گے اور عرب کے ساتھ امریکہ اور چھوٹے حلیف ممالک، جس سے خطرہ ہے کہ عرب و عجم کی اس جنگ کے اثرات سے دنیا بھی محفوظ نہ رہے۔
قارئین، اس جنگ کو روکنے کے لیے عالمی برادری کا کردار مایوس کن نظر آتا ہے۔ پاکستان نے ایران و سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی، لیکن پاکستان اس وقت جن نامساعد حالات اور مشرقی سرحدوں کے ساتھ شمال مغربی سرحد پر ملک دشمن عناصر سے الجھا ہوا ہے، ان حالات کی وجہ سے پاکستان خطے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے جس طرح پاکستان کی سرحدوں پر حملوں کی منصوبہ کی ہوئی ہے، اس سے پاکستان چاہتے ہوئے بھی ایسا کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جس سے خطے میں اہم ممالک کے درمیان کسی ممکنہ جنگ یا تلخی کو کم کیا جاسکے۔
پاکستان، ایرا ن کے پڑوسی ملک ہونے کی حیثیت سے اپنے تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان کے سامنے افغانستان کی بدترین مثال سامنے ہے کہ پاکستان، افغانستان کی جنگ میں سہولت کار بننے سے اتنا متاثر ہوا کہ اب بھی کئی عشرے پاکستان کواپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں لگیں گے۔ ان حالات میں سعودی عرب و عرب ممالک کا اتحادی بن کر ایران کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کا حصہ بننے کے بعد پاکستان بڑی مشکلات میں گھر سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان نے غیر جانب دارملک رہنے کا عزم ظاہر کیا ہوا ہے، تاہم سرزمینِ حجاز پر اگر خدانخواستہ ایسا حملہ ہوتا ہے کہ بیت اللہ اور مقدس مقامات کو تحفظ چاہیے ہو، تو پاکستان پیچھے نہیں رہے گا۔ پاکستان اس امر کا اظہار بارہا کرچکا ہے کہ سرزمینِ حجاز کا تحفظ مملکت کا دینی فریضہ ہے۔
اس وقت سعودی اتحاد کی سربراہی پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف راحیل شریف کر رہے ہیں۔مسلم اکثریتی ممالک کو موجودہ حالات کے تناظر میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر وہ 34 ممالک جو سعودی عرب کے اتحادی فوج کا حصہ ہیں، انہیں مسلم امہ کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے سفارتی بنیادوں پر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
ہر جنگ کا اختتام مذاکرات پر آکر ہوتا ہے۔ اس وقت مسلم اکثریتی ممالک کو مذاکرات اور باہمی اتفاق کی جتنی ضرورت ہے، شائد اس سے پہلے نہ تھی۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔