’’انسان انسان کا مسیحا، دوا دارو کا وسیلہ، یہ عجز و نیاز کا پیکر، یہ موج مستی کا دیوانہ، یہ ہم درد و مہربان بھی اور درندہ صفت وسفاک بھی، اِس کو کوئی تکلیف ہو،تو خدا یاد آ جاتا ہے، مزے میں ہو، تو خود خدا بن جاتا ہے، یہ انسان ہے یا کوئی عجوبہ!‘‘
وسیع انتظار گاہ میں ہڑبونگ کی سی کیفیات سے،لاؤڈ سپیکرز پراعلانات کے شورشرابے سے، ٹی وی سکرین پرخبروں کے شور و غوغا سے،موبائل فونز کی بجتی گھنٹیوں کے بھرمار سے اورجا بجا چلتے رُکتے سٹریچر میں مریضوں کی آہ و بکا سے توجہ ہٹانے کے لیے بے ربط سوچوں میں خود سے یہ سوال بڑبڑاتے ہیں، لیکن اس سے پہلے کہ دماغ کی ڈریلنگ کرکے اِس عجوبہ پرمزید سوچتے، لاؤڈ سپیکر کے ذریعے بڑی مترنم آواز میں اسمِ گرامی پکارکرہماری باری کا اعلان کیا گیا۔
بہت دیر کی مہربان آتے آتے
ہفتہ بھرانتظار کے بعد اپنے گلے سڑے گلے کے ’’بیاپسی ٹیسٹ‘‘ کے رزلٹ بارے جاننے کا وقت آہی گیا۔ ہم دامنِ فکری فوری طورپرفولڈ کرکے ہسپتال کے ای این ٹی یونٹ میں اپنے مسیحا سے ملنے دوڑ پڑتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک لحظہ کے لیے بیرونی منظر کا نظارہ کرتے ہیں۔ منظر شام کا لگتا ہے، یا شاید ہم جیسے بیماروں کو بھلا چنگا چمک داردِن بھی ڈھلتی شام جیسالگ رہا ہے۔ یہ تصدیق کرنے کے لیے ناک کی سیدھ میں دیوار پرلگے وال کلاک کی طرف دیکھتے ہیں۔ قامت میں چھوٹی لیکن جسامت میں موٹی سوئی چھے اور سات کے ہندسوں کے درمیان معلق پاتے ہیں۔ دوسری سوئی کوایسے نظر انداز کرتے ہیں جیسے اپنا ہزارروپے کا بے وقعت نوٹ کہ شمار و قطارمیں آئے یا نہ آئے، فرق کچھ بھی نہیں پڑتا۔ اپنے روپے کی ڈالر کے ہاتھوں یوں گوشمالی جاری رہی، تو ہزار کا موجودہ نوٹ ڈیموٹ ہو کر جلد ہی وہ پُرا نی ٹیڈی پائی بن جائے گا جس پرچالیس عدد دِیا سلائی والی ڈبیا ملا کرتی تھی پچھلی صدی کی ستراسّی کی دہائی میں۔
لیکن کرنسی کے ذکر کا موضوع سے کیا تعلق؟ ہاں تو وال کلاک کے پہلو میں 2019ء کا الیکٹرانک کیلنڈر ماہِ جنوری کی جھولی پھیلائے آویزاں ہے۔ اکتیس کا ہندسہ ایک مربع نما باکس میں بندھا ہوا گواہی دیتا ہے کہ ’’آج جنوری دو ہزار اُنیس کی آخری شام ہے۔‘‘ ہم خود سے ’’غُرغُرائے‘‘، چند گھنٹے بعد ماہِ فروری اپنے پیشرو کا غرورخاک میں ملاتا ہوا اپنے غرور کا سراونچا کرے گا، ماہِ جنوری مغلوب ہو جائے گا اورفروری غالب۔ غالب و مغلوب، طلوع و غروب اور فنا و بقا کا عمل نام ہے زندگی کا۔ یکسانیت تو سیدھی سادی موت ہے۔ زندگی کو چل چلاؤ میں دکھانے کے واسطے مرنا بھی پڑتا ہے۔ صبحِ روشن کے روح پرور نظاروں سے لطف اندوزہوناتاریک راتوں میں طویل قیام کا تقاضا کرتاہے۔ ستاسو خیال دے؟
کل ہوتے ہی پورے ملک میں بہار کی آمد کا ڈنکا بج اُٹھے گا۔ لاہورمیٹرو پولیٹن کارپوریشن والے پھولوں کے میلے سجائیں گے۔ نت نئے رنگ کے پودوں کی نمائش سے اپنے باسیوں کی دل لبھائی کریں گے، خصوصاً محبتوں کے متوالے جوڑوں کی۔ محبتوں کے یہ متوالے مرد و زن اِن میلوں میں گھومنے گھامنے آئیں گے۔ آپس میں اولاً عاشقی کی شروعات کریں گے، ثانیاً ایک دوسرے پر محبتیں نچھاور کریں گے اور ثالثاً پیارویار کی گل فشانی کریں گے، لیکن اپنا تو حال یہ ہے کہ
اب کے رُت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون
زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پَر دیکھے گا کون
اِسی لاہورمیں اِسی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی چھتری تلے واقع شوکت خانم میموریل ہسپتال کے درون کا بیرون کی اِن بہاری کیفیات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ یہاں ایک ہی موسم براجماں رہتا ہے اور وہ ہوتا ہے حسرت و یاس کا موسم، خزانوں کا موسم۔ پوچھنے کی ضرورت نہیں، پژمردہ پیشانیاں اورلٹکتے گردن اپنے غم واندوہ خود بولے، مریض کے بھی ’’لواحقین‘‘ کے بھی۔ یہاں بیمار کم اورتیماردارزیاہ بیمارلگتے ہیں۔ سوچ و فکر کے منطق کو آپس میں لڑاتے جھگڑاتے ڈاکٹر کے کمرے میں قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ رپورٹ دیکھ کر شائد مزید جسمانی مشاہدہ بھی ہوگا۔ اِسی خیال کے پیشِ نظر ڈاکٹر کے بائیں ہاتھ پڑے آئرن سٹول پر بیٹھنے کے لیے بے تابی سے پیش قدمی کرتے ہیں، لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے ڈاکٹر بایاں ہاتھ سامنے والی کرسی کی طرف لہراتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں جو اِس بات کی دلیل ہے کہ ’’بیاپسی رپورٹ‘‘ پرصرف بات ہی کرنی ہے:
’’اَور اس جسم میں کیا رکھا ہے معائنے کو؟‘‘
ہم حسبِ ہدایت اُن کی سامنے والی کرسی پرتشریف رکھتے ہیں۔ اب ہم دونوں کے درمیان ایک میز حائل ہے جس پر پڑے لیپ ٹاپ کا چہرہ ڈاکٹر کے چہرے کے عین متصادم ہے۔ پہلی فرصت میں وہ ایک لحظہ کے لیے مجھے پھر لیپ ٹاپ کی طرف دیکھتے ہیں۔ کمپیوٹر ریکارڈ میں موجود تصویر کے ساتھ میرے جمال کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ کچھ دیر خود کلامی کرتے ہیں، کچھ جمع تفریق کرنے لگتے ہیں دل میں، پھر ہمارے گلے کی بیاپسی رپورٹ کے پسِ منظرمیں کیے گئے تذویراتی جائزے (سٹریٹیجک ڈیپتھ)کی سرسری سمری پیش کرتے ہیں۔ ہم ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں۔ ہاں میں کبھی ہاں ملاتے ہیں کبھی سرہلاتے ہیں۔ وہ اپنی بات کو فُل سٹاپ لگا کر بیک وقت سانس اور انٹروَل دونوں لیتے ہیں۔ پھر پوچھتے ہیں ’’اے نی کوِسچن!‘‘ تب ہم ’’ایٹ اے گلانس‘‘ اُس کی ظاہری وباطنی شکل وصورت کے دیباچے پرنظر ڈالتے ہیں۔ عمرمیں ہم جیسے بھلا کے بُزرگوارم نہیں، رنگ وروپ میں کالے کلوٹے تو ہیں، لیکن بابرکت، ماشاء اللہ! اَنگ َانگ سے پروفیشنلزم کی وبا پھوٹے۔ سوال کا جواب بھی فیس کے حساب سے ناپ تول کر اور اپنے مخصوص ’’چوکاٹ‘‘ کے پیرائے میں دیتے ہیں۔ اذان ہو جائے، تو دیگر ڈاکٹروں کی طرح ’’حئی علی الاصلواۃ‘‘ پرخود بھی خوب چپ سادھ لیتے ہیں۔ چلتا ہواکام تک روک لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی ٹھوک کر کہتے ہیں، خاموش ہو جائیں، سنتے نہیں کہ اذان ہو رہی ہے۔ حئی علی الفلاح پر خاموشی توڑ کر کام کاج میں ویسے لگ جاتے ہیں، جیسے اذان ختم ہو گئی ہو۔ نماز بھی پڑھتے ہیں ڈاکٹر لوگ، چلوپڑھنے دیں ہمیں کون سی جلدی ہے۔
یہ دوسری ملاقات ہے اِن سے، جیسے اکثر ڈاکٹرخود نفسیاتی بیماری کے سڑانگ کیس لگتے ہیں۔ بظاہر یہ بھی ایسے ہی ہیں، نماز پڑھ کرآتے ہیں۔ ہم اُس کی مصروفیات کو اورمعائینہ کے انتظار میں بیٹھے دیگر مریضوں کے احوال کوملحوظِ خاطرنہ رکھتے ہوئے سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔ وہ لیپ ٹاپ کے سکرین پر انگلی کبھی دائیں بائیں اور کبھی اوپر نیچے کرتے ہوئے کسی سوال کا جواب دیتے ہیں کسی کوسکپ کردیتے ہیں۔ معاملہ طول پکڑتا ہے، تو وہ آخری فرمان جاری فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جان بچنے کی موہوم سی اُمید ہے اگرگلے کا آپریشن ہو جائے۔ کچھ بیمار کل پُرزے نکال باہر کیے جائیں۔ کچھ مصنوعی چیزیں فٹ کی جائیں، کچھ رگوں اور نلکیوں کی ری سٹرکچرنگ یا ری الائنمنٹ کی جائے او آواز سمیت کئی دیگر قدرتی فنکشنز کو ڈس فنکشنل کیا جائے، آپریشن طویل بھی ہے اور نازک بھی، نارمل شیڈول میں کل ہی ٹائم مل سکتا ہے، اگرپندرہ منٹ میں فیصلہ کرکے بتایا جائے تب!‘‘
ڈاکٹر اِس بات پر بات کو سمیٹتا ہے، گھنٹی مارتا ہے ملازم کو نیکسٹ کا حکم دیتا ہے اورشریفانہ اندازمیں ہمیں خدا حافظ کہنے کا موڈ بناتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو کہ شریف بندے، ڈھائی ہزارفیس میں تو ڈھائی لفظوں میں بات سمیٹی جاتی ہے، وہ کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتا ہے، جیسے بڑا تھک گیا ہو۔ ہم بذاتِ خود پندرہ سیکنڈ ضائع کیے بغیر اپنا فیصلہ ’’ہاں ٹھیک ہے!‘‘ سناتے ہیں، لیکن ساتھی پھر بھی سوچنے کے لیے پندرہ منٹ کا وقت لیتا ہے۔ ڈاکٹر کے کمرہ سے باہرنکل کرساتھی فرطِ لاچاری میں انتظار گاہ میں موجود میرے بیٹے منظور احمد کے ساتھ مشورہ کرتے ہیں اور ڈاکٹر سے کل کا ٹائم کنفرم کروا کرہسپتال کے اِکاؤنٹینٹ کے ساتھ پیسے جمع کرنے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کرتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے بھائی سید رحیم شاہ باچا کا، انگلینڈ سے فون پرمیری صحت بارے معلومات بھی لے رہے ہوتے ہیں اوردوسری طرف آپریشن کے اخراجات کے لیے درکار لاکھوں روپے وہاں سے ٹرانسفر کرنے کے ڈاکومنٹس بھی ہمیں وٹس اَپ کر رہے ہوتے ہیں۔ مختلف کار روائیوں کی تکمیل کے بعداپنے دوست اسماعیل کے گھر پہنچتے ہیں۔ تھکاوٹ کے باعث آنکھیں بند کرتے ہیں۔ ساتھی افضل شاہ اور اپنے لاہوری دوست چوہدری اسماعیل اکھٹے ہوں اور خاموشی کی کیفیت چھائے؟ یہ کیسے ممکن ہے! اپنے شاہ صاحب ہمارے علاج کا پورا بیڑا سر پر اُٹھائے ہوئے ہیں۔سائے کی طرح ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، جو بھی کام ہو، اُن کی ایک انگلی کے مار پر نہ ہو، تو کہنا۔ چوہدری محمداسماعیل اور ہم ایک محکمہ میں اکٹھے رہے ہیں۔ نوکری کی نہ چاکری، سیدھی سیدھی چوہدراھٹ کی اورڈنکے کی چوٹ پرکی۔ چارپانچ ایم این ایز تو ایک فون کال پر حاضر کروانا تو چوھدری کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوا کرتا تھا۔ اُنیس سو اکیاسی سے ایک دوسرے کے ہم پیالہ و ہم نوا ہیں۔ اب تو ہم پرائے پرائے اورخواتین آپس میں ’’گھرائیں گھرائیں‘‘ ہوگئی ہیں۔ اِن دونوں اصحاب کی نہ ختم ہونے والے بحث و مباحثہ کے دوران میں ہم سونے کی مشق بھی کرتے ہیں اور مستقبلِ قریب میں اپنے گلے کے ساتھ ہونے والے حشر نشر کے متعلق سوچنے کی بجائے ماضیِ بعید کو کھنگالنے میں منہمک ہو جاتے ہیں، تو ایک قطعہ یاد آتا ہے جو شائد روغانیؔ بابا کی ملکیت ہے:
زان وڑوکے کہ چہ جوند دِ خہ تیریگی
خوشالی کہ نہ وی غم تہ خوشالیگہ
پہ ھر حال کے دَ جوندون نہ مزے اخلہ
د ماشوم پہ شان تے مرگ تہ خوشالیگہ
(جاری ہے)
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔