وکی پیڈیا کے مطابق لیبیا پر اطالوی قبضے کے خلاف تحریکِ مزاحمت کے معروف رہنما عمر مختار 16ستمبر 1931ء کو انتقال کرگئے۔
وہ 1862ء میں جنزور نامی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1912ء میں لیبیا پر اٹلی کے قبضے کے خلاف اگلے 20 سال تک تحریکِ مزاحمت کی قیادت کی۔
عمر مختار کی 20سالہ جدوجہد اس وقت خاتمے کو پہنچی، جب وہ ایک جنگ میں زخمی ہوکر اطالویوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔اُس وقت اُن کی عمر 70 سال سے زیادہ تھی اور اس کے باوجود انہیں بھاری زنجیروں سے باندھا گیا اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ ان پر تشدد کرنے والے فوجیوں نے بعد ازاں بتایا کہ جب انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، یا تفتیش کی جاتی، تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے۔
ان پر اٹلی کی قائم کردہ ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور سزائے موت سنادی گئی۔ تاریخ دان اور دانشور ان پر عائد مقدمے اور عدالت کی غیر جانب داری کو شکوک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان سے جب آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھا۔
انہیں 16 ستمبر 1931ء کو سرِعام پھانسی دے دی گئی۔ کیوں کہ اطالوی عدالت کا حکم تھا کہ عمر مختار کو پیروکاروں کے سامنے سزائے موت دی جائے۔
آج کل ان کی شکل لیبیا کے 10 دینار کے نوٹ پر چھپی ہوئی ہے جب کہ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ’’ہالی ووڈ‘‘ نے 1981ء میں ان کی زندگی پر ایک فلم "The Lion of Desert” یعنی ’’صحرا کا شیر‘‘ بنائی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر مصطفی العقاد تھے۔ فلم میں عمر مختار کا کردار انتھونی کوئن نے ادا کیا۔