چور خود اپنے چوکنا پن سے پہچانا جاتا ہے۔ عام طعنے اور کنایے کو اگر کوئی اپنی طرف گمان کرے، تو بھی یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔ اصل میں یہ ایک قاضی کے فیصلے کی تلمیح ہے جو معمولی فرق کے ساتھ کئی طرح سے مشہور ہے، جن میں سے ایک یہ ہے:
’’کسی شخص کا کچھ روپیہ جو بھوسے کی کوٹھری میں چھپا رکھا تھا، چوری ہوگیا۔ اس نے کوتوال سے فریاد کی ۔ کوتوال بہت عقل مند تھا۔ وہ موقع واردات پر پہنچا۔ جگہ کا معائنہ کیا۔ مشتبہ لوگوں کو اکٹھا کیا اور سب کو ایک جگہ کھڑا کرکے کہا کہ جگہ مجھ سے کہہ رہی ہے کہ جس ڈاڑھی میں تنکا ہوگا وہی چور ہے۔ موجود لوگوں میں سے جو چور تھا، اس نے اپنی ڈاڑھی پر احتیاطاً ہاتھ پھیرا کہ شاید کوئی تنکا ہو، تو وہ گر جائے۔ کوتوال تو نظر رکھے ہوئے تھا۔ اس نے فوراً اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ ’’چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔‘‘
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 143 سے انتخاب)