(خصوصی رپورٹ: فیاض ظفر) سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں ہر جمعرات کو سجنے والے روایتی میلہ کو پچاس سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ مینگورہ شہر کی ملابابا روڈ پر یہ میلہ ریاستِ کے دور میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت سے اب تک ہر جمعرات کو ایک بڑے میدان میں یہ میلہ صبح سے شام تک لگا رہتا ہے۔ ہر جمعرات کو دور دراز سے لوگ میلے میں آتے ہیں اور خریداری کرکے واپس جاتے ہیں۔ میلہ میں ہر قسم کا مال مویشی، کبوتر، توتے اور دیسی مرغ کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ میلہ میں اشیائے خور و نوش کے سٹال بھی لگتے ہیں جن میں گڑ کے سٹال سب سے زیادہ اور توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میلہ میں کپڑے، زرعی ادویہ، زمین داری میں استعمال ہونے والی مختلف اشیا، آلات اور انگلینڈ اور کینڈا سے کنٹینر میں آنے والے استعمال شدہ سامان (کاٹھ کباڑ)کے سٹال بھی لگتے ہیں، جس میں لوگ بھرپور خریداری کرتے ہیں۔
اس روایتی میلہ کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں پشاور، چارسدہ، صوابی، مردان سے بھی بیوپاری ہر جمعرات کو آتے ہیں اور اپنے سٹالوں میں مختلف چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ میلہ میں اعلیٰ نسل کے کتوں اور بلیوں کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے۔ سائیکلوں کی خرید و فروخت کے لیے بھی اس میں ایک جگہ مخصوص کی گئی ہے۔
مینگورہ شہر کا یہ تاریخی میلہ ریاستِ سوات دور میں والیِ سوات نے شروع کیا تھا، تاکہ ایک ہی جگہ لوگوں کو سستی خریداری کا موقعہ مل سکے۔ میلہ میں ایک بزرگ امیر رحمان ماما کا کہنا تھا کہ مَیں 1965ء سے ہر جمعرات کو اس میلہ میں آتا ہوں۔ "یہ میلہ پہلے ندی کے پار لگتا تھا، لیکن آبادی کی وجہ سے اس کی جگہ تبدیل کرکے اسے ندی کے آر کردیا گیا۔ پھر جب وہاں بھی آبادی بڑھنا شروع ہوئی، تو میلہ کو قریب میں واقع ایک میدان میں منتقل کیا گیا، جہاں اس وقت سے اب تک یہ میلہ قائم ہے اور یہ میدان اب ’’میلہ ڈاگ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔”
مینگورہ کے اس جمعرات میلہ میں کسی وقت مداریوں کا راج ہوتا تھا۔ طوفان مداری یہاں کا سب سے بہترین کردار ہوگزرا ہے۔ میلہ میں بیک وقت تین سے چار مداری مجمع لگاتے تھے۔ اپنے مخصوص انداز میں سانپ یا دوسرے جانوروں کے کرتب دکھا کر لوگوں کے ہاتھ اپنی تیار کی گئی مختلف ادویہ فروخت کیا کرتے تھے، لیکن آہستہ آہستہ صنعتی ترقی اور لوگوں کی عدم دل چسپی کی وجہ سے مداریوں نے اس میلہ میں آنا چھوڑ دیا۔
مینگورہ کا یہ ہفتہ وار میلہ جیب تراشوں کے لیے بھی مشہور تھا۔ اس میلہ میں ہر جمعرات کو کئی لوگوں کے جیب کاٹے جاتے تھے، لیکن اب جیب تراشوں نے بھی میلہ میں جانا چھوڑ دیا ہے۔
میلہ میں چارسدہ اور مردان کا گُڑ سب سے زیادہ فروخت ہوتا ہے۔ یہاں گُڑ کے مختلف سٹال لگے ہوتے ہیں، جہاں خریداروں کا رَش بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک سٹال پر مقامی نوجوان مراد علی کا کہنا تھا کہ وہ گھر میں گُڑ کی چائے پیتے ہیں، اور جب گڑ ختم ہو جائے، تو وہ اس میلہ میں چارسدہ کے ایک رہائشی سے پوری بوری خریدا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بازار میں اب کیمیکل ملا گُڑ فروخت ہوتا ہے، اس لیے وہ ایک عرصہ سے جمعرات کو اس میلہ سے گُڑ خرید تے ہیں۔ کیوں کہ میلہ کا گُڑ اچھا اور کیمیکل سے پاک ہوتا ہے۔
پچاس سال سے زائد کا عرصہ ہونے کے باوجود یہ میلہ اب بھی روایتی انداز سے جاری ہے۔ میلہ میں اب بھی خوراک کے سٹال لگتے ہیں اور یہاں آنے والے لوگ دوپہر کا کھانا بھی یہاں کھاتے ہیں۔ میلہ میں کابلی پلاؤ، اُجڑی، کلیجی اور دیگر خوراکی سٹالوں کے ساتھ گُڑ کے شربت اور گنے کے جوس کے سٹال بھی لگتے ہیں۔ یہ میلہ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے زیر انتظام ہوتا ہے اور ہر سال جون میں اس کا ٹھیکا دیا ہے۔ سب سے زیادہ رقم کی بولی دینے والے کو یہ میلہ ایک سال کے ٹھیکے پر دیا جاتا ہے۔