تشبیہِ خیالی، وہمی اور وجدانی

٭ تشبیہِ خیالی:۔ تشبیہِ خیالی اور وجدانی ایک جیسی ہے۔ بہرحال تشبیہِ خیالی ایسی تشبیہ ہے جس میں مشبہ اور مشبہ بہٖ کا وجود صرف متخیلہ کے ذریعے اختراع کیا جائے جیسے: بقولِ نفیسؔ
تشبیہ دے چکا ہوں میں مارِ دو سر کے ساتھ
زلفوں کو اس کی ہاتھ لگاتا ہوں ڈر کے ساتھ
اس شعر میں محبوب کی زلفوں کو مارِ دو سر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، جو فرضی خیالی جانور ہے۔
بقولِ شادابؔ
قریب رُخ کے جو وہ زلفِ پُرشکن دیکھی
حلب کی صبح شب ودایِ یمن دیکھی
حلب کی صبح اور شبِ وادیِ یمن ایسے اُمور ہیں کہ حواس سے مدرک ہوتے ہیں۔ متخیلہ نے ان کو ترکیب دے کر جمع کیا ہے۔ گو خارج میں ایک جگہ نہیں دیکھے جاتے۔
بقولِ کوثرؔ
سر کے تعویذوں پہ تیرے میں کہوں پھبتی نئی
خوشۂ پرویں ہے اے مہرباں، بالائے سر
خوشۂ پرویں کا سر پر واقع ہونا خیال محض ہے۔
٭ تشبیہِ وہمی:۔ ایسی تشبیہ جس میں مشبہ اور مشبہ بہٖ کا وجود قوتِ واہمہ خود ہی اختراع کرلیتی ہے۔ تشبیہِ خیالی اور تشبیہِ وہمی میں فرق یہ ہے کہ تشبیہِ خیالی کے اجزا تو خارج میں پائے جاتے ہیں، مگر تشبیہ وہمی کے تمام اجزا خارج میں نہیں پائے جاتے۔ مثلاً بقول امانتؔ
صندل اس کی ہے مانگ میں کیا خوب
راہِ ظلمات میں یہ دَل دَل ہے
اس شعر میں راہِ ظلمات میں دلدل کا تصور کرنا وہم کا کام اختراع ہے۔یہ چیز حسِ مشترک کے ذریعے خیال میں نہیں پہنچتی۔
یا بقولِ اصغرؔ
تری اس مانگ سے کیا معنی دلخواہ پیدا ہے
شبِ معراج کی اس خط سے گویا راہ پیدا ہے
مانگ کے خط کو شبِ معراج کی راہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کا تصور کرنا وہم کا کام ہے۔ خیال اس قسم کے تصور سے عاجز ہے۔
٭ تشبیہِ وجدانی:۔ تشبیہِ وجدانی وہ ہے جو مشبہ بہٖ کو صرف باطنی قوت سے محسوس کیا جاسکے۔ باطنی قوت جسے عرفِ عام میں وجدان کہتے ہیں۔ مثلاً بھوک، پیاس، افلاس، مسرت، غم یا (لذت، الم، سیری، خوف، رنج) وغیرہ۔ ان تمام جذبات کا ادراک نہ حواسِ ظاہری سے کیا جاسکتا ہے اور نہ عقلِ محض سے، بلکہ صرف وجدان سے انہیں محسوس کیا جاسکتا ہے، جیسے:
اس غیرت ناہید کی ہرتان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
اس شعر میں شاعر نے آواز کو شعلہ سے تشبیہ دی ہے جس کا لطف، وجدان ہی سے ممکن ہے۔
عبث دیتا ہے لالچ جنت الفردوس کا واعظ
مئے گلگوں میں آتا ہے ہمیں یاں لطف کوثر کا
مئے گلگوں (سرخ رنگ کی شراب) کا لطف وہ لذت ہے کہ اس کے پینے کے بعد دل میں حاصل ہوتا ہے۔
وقتِ سر کٹنے کے یہ نکلی صدائے شاہِ دیں
آبِ کوثر کا مزہ ہے خنجرِ بے آب میں
٭ طرفینِ تشبیہ کی تعداد کے لحاظ سے تشبیہ کی اقسام:
1:۔ تشبیہِ مفرد، جس وقت مشبہ اور مشبہ بہٖ دونوں تعداد کے لحاظ سے ایک ہوں، مثلاً:
بقولِ میر تقی میرؔ
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
اس شعر میں نزاکتِ لب کو گلاب کی ایک پنکھڑی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
یا بقولِ رندؔ
اُس کے ہاں آفتاب عارض ہے
دن ہی آٹھوں پہر ہے رات نہیں
اس شعر میں عارض (چہرے) کو آفتاب سے تشبیہ دی گئی ہے۔
یا ظفرؔکا یہ شعر ملاحظہ ہو:
کوئی کہتا ہے وہ شفاف عارض صبحِ صادق ہے
کوئی کہتا ہے وہ دُر کان کا تابندہ اختر ہے
2:۔ تشبیہِ مرکب:۔ تشبیہِ مرکب وہ ہے جس میں مشبہ اور مشبہ بہٖ دونوں دو یا دو سے زیادہ اشیا پر مشتمل ہوں، جیسے:
وہ ہُوا گرد سے جب وقتِ شکار آلودہ
تیر خاکی بنے مژگانِ غبار آلودہ
اس شعر میں ’’مژگانِ غبار آلودہ‘‘ مشبہ مرکب ہے اور ’’تیرِ خاکی‘‘ مشبہ بہٖ مرکب یعنی تیر پر خاکی ہونے کی قید یا شرط ہے۔ کبھی مشبہ مفرد ہوتا ہے اور مشبہ بہٖ مرکب، جیسے بقول شادابؔ
کہتے ہیں لوگ اس کے مہاسے کو دیکھ کر
شبنم کی بوند ہے یہ گلِ آفتاب پر
’’مہاسہ‘‘ مشبہ مفرد ہے اور شبنم کی بوند کا سورج مکھی کے پھول پر ہونا مشبہ بہٖ مرکب ہے۔ کبھی مشبہ مرکب ہوتا ہے اور مشبہ بہ مفرد، جیسے
ہے ستارہ ذوذنب یا رُخ ہے زلفِ یار میں
خال ہے خورشید میں، یا تل ہے یہ رخسار میں
زلفِ یار میں ’’رُخ‘‘ کا واقع ہونا مشبہ مرکب ہے اور ’’ذوذنب‘‘ (دُمدار ستارہ) مشبہ بہٖ مفرد ہے۔

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔