نفسیاتی مسئلہ، بخار، شوگر، کینسر اور دیگر امراض کی طرح بظاہر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتا۔ بیشتر نفسیاتی مریض بظاہر جسمانی طور پر صحت مند اور تندرست ہی نظر آتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہر نفسیاتی مریض کو اپنا آپ ٹھیک اور دوسرے لوگ بیمار دکھائی دیتے ہیں۔ نفسیاتی الجھنوں کے جہاں اور ڈھیر ساری وجوہات ہیں، وہیں برتری اور کمتری کا احساس بھی نفسیاتی مسائل کی ایک اہم وجہ ہے۔ احساسِ برتری کے شکار لوگ ہمیشہ اپنی ذات کے خول میں قید رہتے ہیں۔ ان کی سوچ ان کے خاندانی پس منظر، دھن، دولت، جائیداد، تعلیم، شہرت اور دیگر دستیاب وسائل کے گرد گھومتی ہے جن کے بل بوتے پر وہ کچھ بھی کرنے کی قوت رکھتے ہوں۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو سب سے برتر جب کہ دوسرے لوگوں کو کسی بھی معاملے میں خود سے کم تر سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ خاندانی رئیس، جاگیردار اور سرمایہ دار ہونے کے علاوہ ان کی کوئی بھی خاصیت اور صلاحیت نہیں ہوتی۔ ادنیٰ خاندان سے تعلق رکھتے کم تعلیم یافتہ اور دھن دولت سے محروم غریب مزدور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے باوجود خود کو ہمیشہ کم تر ہی سمجھتے ہیں اور یہی عوامل معاشرہ میں نفسیاتی مسائل اور الجھنوں کا سبب بنتے ہیں۔ بچپن میں یتیم ہونے والے لوگ زندگی بھر نفسیاتی الجھنوں کے حصار میں جھکڑے ہوتے ہیں، اور لاکھ کوشش کے باوجود وہ ان سے باہر نکل نہیں پاتے۔ ایسے لوگ انتہائی حساس ہوتے ہیں۔
نفسیاتی مریض کبھی خود کو بیمار تصور نہیں کرتے، مگر ان کا بات بات پر لڑنا جھگڑنا، عدم برداشت کا شکار ہوکر گالم گلوچ پر اُتر آنا، بھوک ختم ہونا اور نیند کا کم آنا، ہر بات کا بلاوجہ کھوج لگانا، دوسروں کے معاملات میں غیرضروری مداخلت کرنا، کسی بھی محفل میں حد سے زیادہ باتونی بننا، اپنے مؤقف پر ڈٹ جانا، اپنی بات دوسروں پر منوانا اور دوسروں کی بات سنے بغیر رد کردینا، ضرورت سے زیادہ ہنسنا، چُھپ کر دوسروں کی بات سننا، جنسی گفتگو کرنا اور ایسے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی لینا، دوسروں میں برائی تلاش کرنا، شکی مزاج ہونا، بات بات میں کیڑے نکالنا اور الزامات لگا کر دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا، بے صبری کرنا، دوسروں کا مذاق اڑانا، اپنے گھریلو معاملات کو سرِعام بیان کرنا، بدگمانی پیدا کرکے دوسروں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرنا، سنجیدہ محفل میں غیرسنجیدگی دکھانا، اپنے منھ میاں مٹھو بن کر اپنی تعریفوں کے پل باندھنا، جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا پسند کرنا، گاڑی چلاتے وقت غیر ضروری تیز رفتاری کرنا، یا قصداً گاڑی آہستہ چلا کر ٹریفک کی روانی متاثرکرنا، دن میں کئی بار لباس بدلنا یا ایک جوڑا مسلسل کئی تک دن پہننا، مذہبی جنونیت، فرسودہ روایات کی پاس داری، کسی بھی معاملہ میں اپنے آپ سے بہت متاثر ہونا وغیرہ، ان کے نفسیاتی بیمار ہونے کے دلائل ہیں۔
اس طرح معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا اور جنسی تشدد کے بعد انہیں بے دردی سے قتل کرنا، مردوں کا خواتین کو اپنے ہوس کا نشانہ بنانا اور خواتین کا مردوں کو اپنے نسوانی حسن اور اداؤں کی جال میں پھنسا کر انہیں نقصان دینا، غربت اور تنگ دستی کو جواز بناکر والدین کا اپنے بچوں کو قتل کرنا اور اپنی زندگی کا بھی چراغ گُل کر دینا، لوگوں کا نامعلوم وجوہات کی بنا پر ٹرین کے آگے لیٹ کر موت کو گلے لگانا، گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کر پنکھے کے ساتھ جھولنا، زہریلی دوا کھا کر، بلند عمارت کی چھت سے کود کر یا دریا میں چھلانگ لگا کر یا پھرخود کو گولی مار کر موت کی وادی میں چلے جانا، میاں بیوی کے مابین گھریلو ناچاقی پیدا ہونا اور معاملہ جا کر طلاق پر رُکنا ایسے ذہنی اور نفسیاتی مسائل ہیں جو کسی جسمانی بیماری کی طرح بظاہر محسوس نہیں کیے جاسکتے، تاہم معاشرتی زندگی میں آئے روز پیش آنے والے مختلف نوعیت کے واقعات اور ان کے محرکات اس کی گواہی دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ البتہ چرس، ہیروئن، شراب اور دیگر منشیات استعمال کرنے والے نشئی لوگ نفسیاتی مسائل اور الجھنوں کی واضح علامت ہوتے ہیں، مگر ایسے نفسیاتی مسائل جنم کیوں لیتے ہیں؟ ان کا ذمہ دار کون ہے اور ایسے مسائل کا تدارک کیسے ممکن ہے؟ بلاشبہ یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب دیے اور ڈھونڈے بغیر ان مسائل کا خاتمہ کسی طور ممکن نہیں۔ ظاہر ہے میاں بیوی، والدین، بچوں، دوستوں، ہم منصب اور ہم پیشہ ساتھیوں کے رویے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ناکردہ گناہ میں شہریوں کے ساتھ نامناسب رویہ، بااثر افراد کی جانب سے کمزور لوگوں کی عزتِ نفس مجروح ہونا اور حکومتی عدم توجہی کے سبب شہریوں میں پیدا ہونے والا احساسِ محرومی نفسیاتی مسائل جنم لینے کے بنیادی محرکات ہیں، جو ایسی الجھنوں کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت اور غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے ٹی بی، ایڈز، کینسر اور پولیو جیسے موذی امراض سمیت منشیات کے استعمال کے خلاف آگاہی مہم تو چلائی جاتی ہے، مگر نفسیاتی الجھنوں سے بچنے کے لیے کوئی بھی مؤثر پروگرام دکھائی نہیں دیتا، تعلیمی اداروں میں طلبہ کے جسمانی تن درستی (فزیکل فٹنس) کا باقاعدہ انتظام ہوتا ہے، مگر نفسیاتی مسائل سے بچنے اور اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ اس بارے طلبہ کو بتانے اور سمجھانے کا تعلیمی اداروں میں کوئی بھی انتظام نہیں ہوتا۔ اگرچہ کالج اور یونیورسٹی سطح پر سائیکالوجی کا مضمون پڑھایا جاتا ہے، مگر پڑھانے والے بیشتر اساتذہ خود نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر احساسِ محرومی کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا، تو پوری قوم نفسیاتی مریض بن جائے گی۔
اگر بات کریں سوشل میڈیا کی، تو ایک جانب ترقی اور جدت کا سفر نظر آتا ہے اور دوسری جانب کم عمری میں بچے بچیوں کو بالغ بنانے میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سوشل میڈیا ہر طبقۂ فکر اور معاشی درجہ بندی کے ہر طبقے کے دسترس میں ہے۔ اس کی وجہ سے نوجوانوں اور تقریباً ہر عمر کے ذی ہوش کو بے شمار مسائل اور اَن گنت فکریں اپنی گرفت میں رکھتی ہیں۔ یہیں سے مثبت اور منفی پہلو شخصیت پر اثر انداز ہونا شروع ہوتے ہیں، جو بالآخر انسان کو ذہنی معذور اور نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔
قارئین، نفسیات کے ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق کسی بھی مذہب سے تعلق ہونا، اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا بھی انسان کو بے شمار نفسیاتی اور ذہنی دباؤ سے بچا لیتا ہے۔ آج کا دور اس تیز رفتاری کا ہے کہ ہر شخص دوسرے سے نام، کام، مقام اور امارت میں آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ ہر طرح کی اخلاقی حدود پار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ حالات کچھ بھی ہوں۔ نفسانفسی کے اس دور میں وہ شخص عظیم ہے جو دوسروں کے کام آئے، اور مشکلات کے باوجود خوش دلی کا مظاہرہ کرے۔ ایسے لوگ کم ہی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔