کتوں والا بادشاہ، کشمیر اور حالاتِ حاضرہ

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے دس جنگلی کتے پالے ہوئے تھے۔ وزراء میں سے جب بھی کوئی وزیر غلطی کرتا تو بادشاہ اسے ان کتوں کے آگے ڈال دیتا اور کتے اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اسے مار دیتے۔ ایک دن ایک خاص وزیر نے بادشاہ کو غلط مشورہ دے دیا جو بادشاہ کو پسند نہیں آیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ وزیر کو ان کتوں کے آگے پھینک دیا جائے۔ وزیر نے بادشاہ سے التجا کی کہ حضور ،میں نے دس سال آپ کی خدمت کی۔ خدمت میں دن رات ایک کیے اور آپ ایک غلطی پر مجھے اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن میری بے لوث خدمت کے عوض آپ مجھے دس دن کی مہلت دیں، پھر بے شک آپ مجھے کتوں کے آگے ڈال دیں۔ یہ سن کر بادشاہ وزیر کو مانگی ہوئی مہلت دینے پر راضی ہوا۔ وزیر وہاں سے سیدھا رکھوالے کے پاس گیا، جو ان کتوں کی حفاظت پر مامور تھا۔ اس نے اس سے کہا کہ مجھے دس دن ان کتوں کے ساتھ گزارنے ہیں۔ رکھوالا وزیر کے اس فیصلے پر حیران ہوا لیکن اس نے اجازت دے دی۔ ان دس دنوں میں وزیر نے کتوں کے کھانے پینے، اوڑھنے بچھونے اور نہلانے کے سارے کام اپنے ذمّے لے کر نہایت تن دہی کے ساتھ سر انجام دیے۔ دس دن مکمل ہونے پر حکم کے مطابق وزیر کو ان کتوں کے آگے ڈال دیا گیا۔ لیکن وہاں کھڑا ہر شخص اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوا کہ آج تک نجانے کتنے وزیر ان کتوں کی خوراک بن چکے ہیں، آج وہی کتے اس وزیر کے پیر چاٹ رہے ہیں۔ بادشاہ بھی یہ منظر دیکھ کر حیران ہوا اور پوچھنے لگا کہ آج ان کتوں کو کیا ہوا؟ وزیر نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت، مَیں آپ کو یہی دکھانا چاہتا تھا۔ میں نے صرف دس دن ان کتوں کی خدمت کی۔ یہ میرے ان دس دنوں کے احسانات نہیں بھول رہے، اور یہاں مَیں نے دس سال آپ کی خدمت کی، لیکن آپ نے میری ایک غلطی پر میری ساری زندگی کی خدمت پسِ پشت ڈال دی۔ یہ سن کر بادشاہ کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے فرمان جاری کیا کہ وزیر کو کتوں کے آگے سے باعزت اٹھا کر مگرمچھوں کے تالاب میں ڈال دیا جائے۔
عزیزانِ من،آپ شاید ہنس رہے ہوں گے لیکن یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وزیر کی کوششوں نے بادشاہ کو اس کی غلطی کا احساس تو دلایا، لیکن خود کو سزا سے نہیں بچا سکا۔ ایسا کیوں؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ وزیر کی موت کا فیصلہ بادشاہ کی زبان سے صادر ہوچکا تھا اور یہ بادشاہوں کی روایت کے خلاف تھا کہ ان کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ بدل دیا جاتا۔ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ ان بادشاہوں نے ہمیشہ عیسیٰ، موسیٰ، بودھ اور محمد رسولؐ اللّہ کی تعلیمات کو پامال کرنا گوارا کیا ہے لیکن اپنی زبان سے صادر ہوئے ہر فیصلے کو آج تک نہیں بدلا۔ درحقیقت انسانیت پر مظالم ڈھانے والے کردار تین ہیں۔ جن کا قرآن مجید نے شیطان، فرعون اور قارون کی اصطلاح میں ذکر کیا ہے۔ قرآن حکیم نے ان تینوں پر اتنی لعنتیں بھیجی ہیں کہ عام بول چال میں یہ نام گالی تصور کیے جاتے ہیں۔
قرآنِ کریم جس بنا پر ان کو مستحق لعنت قرار دیتا ہے، وہ تین چیزیں ہیں۔ غرورِ نسل، غرورِ اقتدار اور غرورِ زر۔ نسلی غرور کا دیوتا شیطان ہے جس نے آدم کی ذات پر اپنی ذات کو برتری دی۔ ملوکیت کا مجسمہ فرعون ہے جس نے خدا کے بندوں پر اپنی خدائی قائم رکھنے کے لیے معصوم بچوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ اور ایسا سرمایہ دار کہ دولت و ثروت کا گھمنڈ اس کے دل کو پتھر بنا دے ،وہ قارون ہے۔ یہ تینوں کردار انسانیت کی مقدس سطح میں اونچ نیچ اور نشیب و فراز کے گڑھے ڈال کر یکسانیت، اخوت اور مساوات کی سطح کو درہم برہم کر ڈالتے ہیں۔ بھائی چارے کی چادر کو تار تار کردیتے ہیں۔ لہٰذا انسانیت کی نظر میں بھی مردود و ملعون ہیں، اور خدائے متعال کی نظر میں بھی معتوب و مبغوض ہیں۔ شیطان، فرعون اور قارون کے یہ تینوں کردار ازل سے لے کر آج تک ہر معاشرے میں فساد کے مؤجب بنے ہوئے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں، تو ہمیں ان تینوں میں سب سے بڑا فسادی کردار قارون کا یعنی سرمایہ دار کا نظر آتا ہے۔ یہ سرمایہ دار اپنا سرمایہ بڑھانے کے لیے کبھی مذہب کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے، تو کبھی پوری کی پوری ریاست کو اپنے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کرتا ہے۔
سیدنا یوسفؑ کے دور کے کاہنانِ معبد سرمایہ دار ہی تو تھے۔ سیدنا عیسیٰؑ کا واسطہ بھی بنی اسرائیل کے سونے کے تاجروں اور ان کی روٹیوں پر پلنے والے، سونے کے سکوں کے بدلے دین میں نئی نئی اختراع کرنے والے ہیکلِ سلیمانی کے کاہنوں سے تھا۔ آج بھی یہ سرمایہ دار دنیا کے ہر بڑے سے بڑے فساد کا مؤجب بنتے ہیں۔ ہر خطے میں یہ لوگ دنیا کمانے کے لیے اقوام کو منتشر کرکے ہجوم میں بدل دیتے ہیں۔ آج امریکہ موجودہ دور کا فرعون کیسے بنا ہوا ہے؟ اگر آپ کبھی تحقیق کرنا گوارا کرلیں، تو آپ یہ جان لیں گے کہ دنیا کے سب بڑے بڑے سرمایہ دار امریکہ میں رہتے ہیں اور انہی کی دولت سے امریکہ چلتا ہے۔
عزیزانِ من، انسانیت واجب الاحترام حقیقت ہے۔ یہ رنگ و نسل سے بہت بلند ہے۔ جغرافیائی حدبندیوں سے آزاد ہے۔ کیوں کہ اس کو "احسنِ تقویم” عطا ہوا ہے۔ لہٰذا ہم پر پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ انسانیت کے فطری تقاضوں کو پورا کریں۔ ہم انسانیت کے سچے اور پاکباز خادموں کا احترام کریں۔ خواہ وہ کسی بھی قوم، امت، جماعت یا کسی بھی ملک میں گزرے ہوں۔ تمام انسان بھائی بھائی ہیں کیوں کہ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ خواہ ان کا کوئی رنگ ہو، ان کی بولی خواہ کچھ بھی ہو، وہ سب انسانیت میں مشترک ہیں۔ ان میں اگر کوئی امتیاز ہوسکتا ہے، تو وہ نسل، رنگ یا ملک اور قوم کی بنا پر نہیں بلکہ اخلاق، کردار، اِفادیت اور خدمت خلق کی بنا پر۔
عزیزانِ من، سب سے زیادہ مستحقِ تعظیم وہ ہے جو کردار میں سب سے اعلیٰ ہو۔ نسلی امتیاز اور قبائلی اونچ نیچ شیطانیت ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔ انسان اس غرور میں مبتلا ہو کر انسانیت کی اس وسیع چادر کو تار تار کر ڈالتا ہے۔ وہ سرمایہ داری جو انسانی صورت کو تجوریوں کا اژدہا بنا دے قارونیت ہے، کیا اس کو ختم نہیں ہونا چاہیے؟ یہ انسانیت کو پامال کرتی ہے۔ کمزوروں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتی ہے اور اپنے نفع کی خاطر دوسروں کا خون چوستی ہے۔ ملوکیت اور ڈکٹیٹر شپ کا پرانا نام فرعونیت ہے۔ ہمیں یہ شعور اجاگر کرنا چاہیے کہ ایسا نظامِ حکومت انسانیت کے لیے لعنت ہے اور آئندہ کے لیے اس کا سد باب ہونا چاہیے۔ ہمارا رحم ایسا رحم ہونا چاہیے جس کا دامن خدا کی تمام مخلوق کے لیے وسیع ہو۔ ہمارا عدل ایسا عدل ہو جو اپنے پرائے، دوست اور دشمن سب کے لیے یکساں ہو۔ کیا آج کشمیر، برما، افغانستان اور شام کے باشندوں پر جاری مظالم کے پیچھے موجودہ دور کی شیطانیت، فرعونیت اور قارونیت کھڑی نہیں؟ اور کیا آج بھی ہمارے حکمران تحریر کی تمہید میں ذکر شدہ کتوں والے بادشاہ کی طرح سراسر ظلم پر مبنی فیصلوں پر ڈٹے نہیں؟ پوری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ "ریسلر” ٹرمپ اور "کرکٹر” نیازی کشمیر کے بارے میں کیا فیصلہ کرچکے ہیں؟ جس طرح وزیر کی موت کا فیصلہ بادشاہ صادر کرچکا تھا، اسی طرح زمانے کے فراعنہ کشمیر کا فیصلہ صادر کرچکے ہیں۔ پھر چاہے کشمیر کے لوگ خون کے آنسو کیوں نہ روئیں۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔