پاکستانی سیاست دانوں کے مزاج کے بارے میں کچھ پیشین گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ پاکستانی سیاست ہر دور اور ہر وقت غیر یقینی صورتِ حال میں مبتلا رہتی ہے۔ تاریخ سے گرد اڑائیں، تو پتا چلتا ہے کہ امیر محمد خان نے اقتدار پر قبضہ کیا، تو اعزازی جنرل سکندر مرزا نے انہیں برطرف کیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے جنرل سکندر مرزا کو اقتدار سے ہٹاکر اسے جلا وطن کیا۔ ایوب خان نے دس سالہ اقتدار کے بعد حکومت جنرل یحییٰ خان کے حوالے کی، اور بے یقینی کی سیاسی کیفیت کے سبب ملک دو لخت ہوا اور مشرقی پاکستان "بنگلہ دیش” بن گیا۔ ملک کا آدھا حصہ گنوانے کے بعد بھی ہمارے سیاسی قائدین کو ہوش نہیں آیا۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے سیاست میں اس غیر یقینی کیفیت اور غیر یقینی صورتِ حال کے خاتمہ کے لیے ا قدامات نہیں کیے۔ آج بھی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کا مطمحِ نظر پاکستان اور عوام نہیں، بلکہ ان کی سوئی ذاتی مفادات کے دائرے کے اندر گھوم رہی ہے۔
قارئین، پاکستان میں غیر یقینی سیاسی کیفیت کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہارنے والوں نے کبھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ ہمارے ہاں انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کی ریت اور تاریخ بہت پرانی ہے۔ پاکستان میں انتخابی عمل پر ہمیشہ سوالات اُٹھائے جاتے ہیں۔ 1977ء میں انتخابی نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے اپوزیشن نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ عوام کو نظامِ مصطفی کے نام پر ورغلایا گیا۔ اس غیر یقینی صورتِ حال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا، اور جمہوریت ایک بار پھر ڈی ریل ہوئی۔ تب سے 2008ء تک پاکستانی سیاست پر غیر یقینی کیفیت طاری رہی، اور اقتدار نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں میں رہی۔ گذشتہ تین حکومتوں کے میعاد پورا ہونے سے یہ امید پیدا ہوچکی تھی کہ جمہوری اور پارلیمانی سیاست میں ٹھہراؤ آچکا ہے، اور مستقبل میں یہ تسلسل جاری رہے گا۔ پرانی ریت کے مطابق اپوزیشن نے 2018ء میں ہونے والے قومی الیکشن کے نتائج مسترد کرتے ہوئے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا گیا۔ انتخابی نتائج کے دوسرے دن اپوزیشن کی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں نے احتجاج کا ڈھول گلے میں ڈال کر پیٹنا شروع کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے جلدی میں آل پارٹی کانفرنس بلائی۔ اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے منتخب ارکان اسمبلی کو بزور حلف لینے سے روکنے کا اعلان کیا، لیکن ن لیگ اور پی پی پی نے مولانا کا ساتھ نہ دیتے ہوئے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان، وزرا، ترجمان اور تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی کی زبان درازی اور غیر اخلاقی بیانات اور طرزِ عمل، غیر یقینی سیاسی کیفیت کا سبب بن رہا ہے۔ حزبِ اقتدار کے اس رویے نے خود ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
قارئین، حزبِ اختلاف نے بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اسمبلی فلور اور میڈیا پر شور شرابا کیا کہ ہم عوام دشمن بجٹ کو پاس نہیں ہونے دیں گے۔ سب نے دیکھا کہ وہی عوام دشمن بجٹ پاس ہوا۔ بجٹ کیسے پاس ہوا؟ یہ سب کو معلوم ہے۔ دوسرے دن بلاؤل زرداری فرماتے ہیں کہ بجٹ دھاندلی سے پاس کرایا گیا ہے۔ بجٹ تو پاس ہونا ہی تھا۔ کیوں کہ بجٹ بنا ہی پاس ہونے کے لیے تھا۔ آج اگر سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری ایک دوسرے کے قریب آچکے ہیں، تو ان کا اکھٹا ہونا عوام کے دکھ درد کے لیے نہیں، بلکہ احتساب سے بچنے کے لیے ہے۔ احتساب سے بچنے کے لیے دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈروں نے نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی بے روزگارمولانا فضل الرحمان کی امامت قبول کرلی ہے (اگرچہ سب کے مفادات الگ ہیں)۔ مولانا صاحب کو حکومت گرانے کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے۔ حکومت گرانے اور لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر آل پارٹیز کانفرنس بلائی۔ اجلاس میں حکومت گرانے کا لائحہ عمل طے تو نہ ہوسکا، البتہ 25 جولائی کو یومِ سیاہ منانے اور سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف نے وزیر اعظم عمران خان کا امریکہ کے کامیاب دورے پر یومِ تشکر منانے کا اعلان کیا۔ 25 جولائی کو اپوزیشن کے یومِ سیاہ اور حزبِ اقتدار کے یومِ تشکر سے پاکستان کے غریب عوام کو نہ ایک وقت کی روٹی ملنے کی امید تھی اور نہ انہیں مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر آنا تھیں، ان پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ کم ہونا تھا، نہ پینے کا صاف پانی دستیاب ہونا تھا، نہ ملک میں امن و امان پر کوئی فرق ہی پڑنے والا تھا۔
قارئین، پاکستانی عوام کی تقدیر تب بدلے گی جب ہمارے سیاسی قائدین کو ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے فرصت ملے، اپنے اربوں ناجائز اثاثوں کی فکر سے نجات ملے، منی لانڈرنگ کے مقدمات کا ڈر ختم ہو، قومی خزانہ لوٹنے کے مقدمات سے نجات ملے، حکومت گرانے کا خیال چھوڑ دیا جائے، جعلی اکاؤنٹس مقدمات کا خوف ختم کیا جائے، انتخابی نتائج تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا ہو، امریکی صدر سے ملنے کی سرشاری کم ہو اور وائٹ ہاؤس کی یاترا کا خمار ٹوٹے۔
ہمارے سیاسی رہنماؤں کی اخلاقی حالت تو یہ ہے کہ سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد پر حزبِ اختلاف کو اکثریت کے باوجود شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اس لیے ہوا کہ ہمارے ہاں اسمبلی اور سینیٹ کا ٹکٹ دیتے وقت نظریاتی ورکروں پر غیر نظریاتی، ابن الوقت، لوٹوں اور دولت کے پجاریوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ان کی یہی "ادائے خاص” ہے کہ وہ اپنی سیاسی پارٹی کو کسی بھی وقت چھوڑنے کے تیار رہتے ہیں۔ جمہوریت اور سیاست میں اختلافات لازم و ملزم ہوتے ہیں، مگر اختلافی نقطۂ نظر ہر دورِ حکومت کے حکمرانوں کو پسند نہیں ہوتا۔

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔