پچھلے کالم میں سن 1954ء میں منعقد ہونے والے انتخابات کا ذکر کیا گیا تھا اور ان انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والے مشاورتی کونسل (Advisory Council of Swat State) کے اجلاس کی کارروائی کو موضوعِ بحث بنایا گیا تھا۔ 26 اور 27 مار چ1955ء کو منعقد ہونے والے اُس اجلاس کی کارروائی کی روداد کا تان جہاں ٹوٹا تھا، وہاں سے پھر آغاز کیا جارہا ہے، تفصیل کچھ ملاحظہ ہو:
رحمد ل خان سکنہ کوٹہ نے بتایا کہ چشموں سے سیرابی کے واسطے عام قوانین وضع کیے جائیں۔
صاحبِ صدر نے فرمایا کہ جہاں تک دیرینہ چشموں کا تعلق ہے، اُس کے پانی کی تقسیم حسب دستور ہوگی، اور اس میں مزید ترمیم کی ضرورت نہیں۔ البتہ کسی زمین میں نیا چشمہ اُبل پڑے، تو یہ اُس کی اپنی ملکیت تصور ہوگی۔ علاوہ ازیں اراضیات کے تنازعات کے بارے میں اس ایوان کے ممبروں نے جو متفقہ فیصلہ دیا، وہ مجھے منظور ہوگا۔
دوست محمد خان ساکن کانا نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیںـ:
٭ مڈل سکول کانا کو ہائی سکول کا درجہ دیا جائے۔
٭ کانا تک سڑک کی توسیع کی جائے۔
ہائی سکول کے بارے میں صاحب حضور نے اپنی سابقہ تقریر کی طرف توجہ دلائی کہ ہر ایک حاکمی پر ایک ہائی سکول ہوگا۔ سڑک کی توسیع کے بارے میں صاحبِ صدر نے فرمایا کہ حکومت کے قیام کے بعد قوم نے اپنی رضامندی سے سڑک بنوائی اور اس میں قوم نے حصہ لیا۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر کانا کا جرگہ متفقہ رائے دے کر مشترکہ زمینوں کو حکومت کے حوالے کرے، تو حکومت اس پر غور کرسکتی ہے اور مذکورہ روڈ کے بنانے کی ذمہ داری لے سکتی ہے۔
عدالت خان سکنہ بر سوات نے درجِ ذیل تجاویز پیش کیں:
٭ مینگورہ کے نزدیک دریائے سوات پر پختہ پُل تعمیر کیا جائے۔ نصف خرچہ ریاستِ سوات ادا کرے اور نصف حکومتِ پاکستان، تاکہ عوام کو تکلیف نہ ہو۔
٭ شنگوئی پرائمری سکول کے لیے عمارت کا بندوبست کیا جائے۔
صاحبِ صدر نے فرمایا کہ گیمن اینڈ کمپنی نے تخمینہ لگایا ہے کہ پل کی تعمیر پر سات لاکھ روپے تک رقم خرچ ہوگی۔ اس بارے میں اگر ممبران کی رائے ہو، تو نصف رقم کے لیے حکومتِ پاکستان کو لکھا جائے گا، اور نصف رقم حکومتِ سوات برداشت کرے گی۔ صدر کی اس تجویز کے ساتھ سب نے اتفاق کیا۔ اس طرح شنگوئی سکول کے بارے میں صاحب حضور نے فرمایا کہ آپ لوگ پہلے سکول آباد کریں اور اس کے بعد ضروری لوازمات کے لیے حکومت سے رابطہ کریں۔
مکرم خان سکنہ دکوڑک تحصیل چارباغ نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں:
٭ وہ طلبہ جو ریاست سوات کے خرچہ پر تعلیم حاصل کریں، اُن کو ریاست ہی میں کام پر لگایا جائے، یا اُن سے وظائف واپس لیے جائیں۔ مثلاً ڈاکٹر محمد عمر اور احمد حسین۔
٭ چارباغ میں مڈل سکول کو ہائی سکول کا درجہ دیا جائے۔
صاحبِ صدر نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹر محمد عمر جو کہ حکومت کے خرچہ پر باہر ہے، اُس پر دس سے بارہ ہزار روپے خرچ ہوچکے ہیں، لیکن ڈاکٹر محمد عمر کی اتنی ذاتی جائیداد نہیں، جو حکومت اُس سے ضبط کرلے۔ وہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ ملازم تھا۔ حکومتِ پاکستان کی توجہ جب اس طرف دلائی گئی کہ وہ ریاست سوات کا باشندہ ہے، اور اُسے واپس کیا جائے۔ چناں چہ اُسے ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ احمد حسین کی ضرورت حکومتِ سوات کو نہیں تھی، البتہ اُس سے یہ وعدہ لیا گیا کہ جس وقت ریاست کو ضرورت ہوگی، تو وہ دوبارہ ضرور یہاں آئے گا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بارے میں صاحب صدر نے فرمایا کہ حکومت ہمیشہ ایسے وظائف مقرر کرتی ہے اور کئی طالب علم تاحال حکومت کے وظائف پر مختلف شعبوں میں کام کررہے ہیں۔
سید عبدالجبار شاہ سکنہ چارباغ نے مندرجہ ذیل تجویز پیش کیں۔
بجائے چھ سو روپے سالانہ فی ممبر کے مبلغ دو صد روپے الاؤنس فی اجلاس کونسل، فی ممبر مقرر کیا جائے۔ کیوں کہ اس سے عام لوگ یہ مطلب لیتے ہیں کہ ممبر کی تنخواہ مبلغ 50 روپے ماہوار ہے۔ حالاں کہ یہ الاؤنس ہے اور ماہواری تنخواہ نہیں ہے۔
اس پر صاحبِ صدر نے ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ واقعی یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے اور اس کا اِزالہ ہونا چاہیے۔ سب نے متفقہ طور پر عبدالجبار شاہ کی تجویز کو منظور کرلیا اور صاحب حضور (والیِ سوات) نے فرمایا کہ آئندہ کے لیے ہر اجلاس میں ایوان کے ممبران کو دو سو روپیہ فی اجلاس دیا جائے گا۔
میاں کریم الہادی سکنہ کانجو نے تقریر میں فرمایا کہ ریاستِ سوات کے بجٹ 1954-55ء سے معلوم ہوتا ہے کہ بہ فضل خدا ہماری اقتصادی حالت مستحکم ہے اور عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالا گیا ہے۔ تعلیم، حفظانِ صحت، رسل و رسائل جو ملکی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہیں، اُن پر خاصی توجہ دی گئی ہے۔ دیگر شعبوں کے لیے بھی اُن کی مناسبت سے خاصی رقم وضع کی گئی ہے جو کہ عاقبت اندیشانہ اقدام ہے۔ میں ریاست کو پہلا میزانیہ پیش کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
رحمد ل خان سکنہ کوٹہ نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ حضور والی صاحب صدر کونسل نے بجٹ کے سلسلے میں مختلف شعبوں پر اخراجات کے لیے جو منصوبے تیار کیے ہیں، وہ واقعی قابلِ داد و قابل تحسین ہیں۔ یہ بجٹ اصلیت میں قوم کی آبادی اور تعمیری پروگراموں کا ایک جامع نقشہ ہے۔ سوات ہر لحاظ سے تمدنی، معاشرتی، تعلیمی، اقتصادی اور ہر شعبے میں ترقی پذیر ہے۔
کامران خان سکنہ مینگورہ نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اس ریاست کے حالات سے واقفیت رکھتے ہیں، اُن کے لیے اس بجٹ کو محض چند لاکھ کا بجٹ سمجھ کر کم اہمیت دینا انصاف نہ ہوگا۔ اگرچہ ہمارا بجٹ کروڑوں میں نہیں ہے، لیکن کام کروڑوں کا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا روپیہ سولہ آنے کا ہے۔ خرچہ صرف اس وقت اور وہاں ہوتا ہے جہاں ضرورت ہو۔ رشوت، چوری اور فضول اخراجات کی گنجائش ہماری حکومت میں نہیں ہے۔ بجٹ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔ تعلیم، صحتِ عامہ، سڑکوں اور آب پاشی کے لیے مزید رقم مختص کی گئی ہے۔ اس سال کے دوران میں مزید3 ہائی سکول، چند مڈل سکول، دو پرائمری اور 71 لوئر پرائمری سکول کا کھلنا ایک نہایت ہی قابلِ تعریف کارنامہ ہے۔ چھوٹے قصبوں میں کم عمر بچوں کے لیے لوئر پرائمری سکولوں کا کھلنا ایک بالکل نیا خیال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت کو اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے فکر دامن گیر ہے۔ ملحقہ نیک پی خیل میں نہر اور دریائے سوات پر پختہ پل کی تعمیر نہایت ضروری سکیمیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مَیں کونسل کے اراکین کے جذبات کی ترجمانی کر رہا ہوں۔ موجودہ ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں 5 مزید ڈسپنسریوں کا اضافہ ایک نہایت ہی نیک قدم ہے۔ یہ بجٹ اس بات کی بہترین مثال ہے کہ اگر کوئی حکمران محبت اور خلوص سے قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہو، تو ذرائع محدود ہونے کے باوجود بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ اعلیٰ حضرت والی صاحب کو اس جامع بجٹ پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
سید سکندر شاہ نے تجویز پیش کی کہ چوں کہ ایوان کے ممبروں کی زیادہ تعداد پشتو سمجھتی ہے اور ان میں اُردو دان کم ہیں، اس لیے جو تجاویز پیش کی جا رہی ہیں، وہ پشتو زبان میں ہوں، تاکہ ممبران اس کو بہ خوبی سمجھ سکیں اور بحث میں تفصیل کے ساتھ حصہ لے سکیں۔ اس پر صاحبِ صدر نے جواباً فرمایا کہ سید سکندر شاہ کی تجویز معقول ہے۔ ایوان میں آج سے جو تجویز بھی پیش ہو، وہ اُردو میں ہو، البتہ اُس کا ترجمہ پشتو میں کیا جائے گا۔ تاکہ ممبران کونسل کو کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔
اجلاس میں مشترکہ طور پر والیِ سوات کو اعزازی میجر جنرل کے عہدے پر مبارک باد دی گئی اور حکومتِ پاکستان کا شکریہ ادا کیا گیا کہ انہوں نے والیِ سوات کی خدمات کی قدر کی اور عزت افزائی کی۔ اجلاس کے اختتام پر والی صاحب نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ مقامِ شکر ہے کہ میری قوم میں اب ایسے افراد نے جنم لیا ہے جو پوری ایمان داری سے مجھے مشورہ دے سکتے ہیں اور مَیں فخر محسوس کرتا ہوں کہ قوم کی ذمہ داری کا بوجھ مشترکہ طور پر میرے ساتھ اُٹھائیں گے۔ آپ کو حق حاصل ہے کہ پوری ایمان داری کے ساتھ بحث میں حصہ لیں اور کسی قسم کی جھجھک محسوس نہ کریں۔ اِن شاء اللہ آئندہ اجلاس ماہِ اگست 1955ء میں منعقد ہوگا۔ میری دعا ہے کہ خداوندِ کریم ہم سب کو قوم اور وطن کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
قارئین، دلچسپ امر یہ ہے کہ راقم کو اس انتظامی کونسل کی میعاد کے بارے میں کہیں بھی کوئی تاریخی مواد نہ مل سکا۔ اس انتظامی کونسل کی کوئی میعاد مقرر تھی یا یہ کونسل اس شرط سے مبرا تھی؟ یہ دلچسپ سوال ہے۔ اس پر سردھنیے اور جواب ڈھونڈنے کی کوشش کیجیے، شکریہ!

…………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔