اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام پر سیاسی اقتدار اس طبقے کو حاصل ہے جو عالمی استعمار اور اسلام دشمن طاقتوں کے ذہنی و فکری غلام اور ان کے تعلیمی اداروں کے تربیت یافتہ اوران کی تہذیب و تمدن سے متاثر و مرعوب ہیں۔ یہی ذہنی و فکری غلاموں کا طبقہ ہے جو عالمِ اسلام اور مسلم اُمہ پر غیروں کا ایجنڈا مسلط کیے ہوئے ہے۔ اس میں کسی خاص شخص یا پارٹی کی تخصیص نہیں کی جا سکتی، بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد جو طبقہ اس ملک کے اقتدار و اختیار پر قابض ہوا۔ ان سب کا شروع سے یہی رویہ اور یہی طریقہ ہے کہ مسلمانوں کے دین ایمان، عقیدے اور نظریے سے کھیلا جائے۔ اس کی مزاحمت کی جائے۔ اس کو بزورِ طاقت بروئے کار لانے سے روکا جائے۔ پاکستان بننے کے بعد یہی جاگیر داروں، بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے افراد تھے، جنہوں نے نظریۂ پاکستان اور اسلامی نظام کے قیام سے بر ملا انکار کیا اور ببانگ دہل کہا کہ پاکستان کا قیام اسلامی نظریے کے نفاذ کے لیے نہیں بلکہ ہندووں کے معاشی غلبے سے نجات کے لیے تھا۔ جب رائے عامہ کا دباو بڑھا، تو بڑی مشکل اور لیت و لعل کے ساتھ قراردادِ مقاصد کو بادلِ نخواستہ منظور کیا۔ اسی سیکولر اور انگریز آقاؤں کے وفادار غلاموں نے مطالبۂ نظامِ اسلامی کو غیر مؤثر اور منظر سے ہٹانے کے لیے قادیانی مسئلہ کھڑا کیا۔ پھر قادیانیوں کے تحفظ کے لیے ملک میں ’’مارشل لا‘‘ لگا دیا۔ تمام اہم اداروں میں قادیانیوں کو کلیدی پوسٹوں پر تعینات کیا۔ یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ فوج میں الفرقان بریگیڈ کا قیام عمل میں آیا۔ مرزا غلام قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین بنائے گئے۔ اس سے قبل چوہدری ظفر اللہ خان قادیانی کو ملک کا وزیر خارجہ بنایا گیا تھا، جس نے قائد اعظم کے جنازے میں بھی شریک ہونے سے انکار کیا تھا۔ ایوبی دورِ آمریت میں تو قادیانیوں کو کھل کھیلنے کے مکمل مواقع فراہم کیے گئے۔ دو سو سال تک انگریز نے یہاں حکومت کی۔ اپنا نظام تشکیل دیا۔ نظامِ تعلیم نافذ کیا اور پورے معاشرے کے فکر و خیال اور عقیدے و نظریے کو بدلنے کے لیے تمام حربے اور طریقے آزمائے، لیکن مسلمانوں کے محدود مذہبی امور میں مداخلت سے باز رہا۔ ’’مسلم پرسنل لا‘‘ یعنی عائلی قوانین، مساجد و مدارس، عبادات اور رسوم و روایات میں کوئی مداخلت نہیں کی، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ ایوبی آمریت میں عائلی قوانین تشکیل دیے گئے، جو سراسر قرآن و سنت سے متصادم اور خلاف تھے۔ اس پر بڑا احتجاج ہوا۔ اپنی دیگر آمرانہ پالیسیوں کے ساتھ یہ عائلی قوانین اور مذہبی امور میں مداخلت بھی اس کے زوال میں شامل تھی۔ فوجی آمریت کے طویل دور میں صرف ایک ضیاء الحق مرحوم تھے جو ذاتی طور پر اسلام پسند اور دینی شخصیت کی پہچان رکھتے تھے۔ اس نے حدود آرڈیننس نافذ کی۔ توہینِ رسالت کے لیے قانون بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے دور میں عشر و زکوٰہ وصولی کا نظام بھی قائم کیا گیا، لیکن اس کے یہ دینی احیا کی تھوڑی بہت کوشش کی بھی سیکولر اور مغربی لابی نے بھرپور مزاحمت کی۔ فوجی آمریت کے بعد نام نہاد جمہوری ادوار میں مسلمانوں کے دینی مذہبی جذبات کو کچلنے اور مشتعل کرنے کی بار بار کوشش کی گئی۔ خصوصاً پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے دور میں تو مغرب کے سامنے اپنا ترقی یافتہ، سافٹ اور سیکولر چہرہ پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ درمیان میں پرویز مشرف کی نو سالہ فوجی دورِ حکومت میں تو تمام حدیں پار کی گئیں۔ ہر قسم کی فحاشی اور عریانی کو فروغ دیا گیا۔ بے تحاشا ٹی وی چینل اس مقصد کے لیے کھولے گئے، جنہوں نے مسلم معاشرے میں فحاشی و عریانی کا طوفان برپا کر دیا۔ کیٹ واکس متعارف اور منعقد کیے گئے۔ دلہنوں کے مقابلے سرِبازار منعقد کیے گئے۔ لڑکیوں کی کرکٹ اور ہاکی ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور پاکستان کو مغرب کے سامنے ایک سیکولر مادر پدر آزاد اور ہر قسم کے اخلاقی و روحانی قیدو بند سے آزاد ملک کے طور پر پیش کیا گیا۔ کمانڈو صدر جو کسی سے ڈرتا و رتا نہیں تھا، امریکہ کی ایک دھمکی کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔ برادر اسلامی ملک افغانستان کے خلاف امریکہ کو اپنی زمینی اور فضائی راستے پیش کرکے ایک مسلمان ملک اور اس کے عوام کے خلاف دشمن کے جارحانہ اقدام میں شریک و سہیم بن گیا۔ اب جب نواز زرداری اپنی بد عنوانی اور بیڈ گورننس کی بنیاد پر عوام میں اپنی ساکھ اور عزت کھو کر غیر مقبول ہوگئے، تو عالمی استعمار کو خوف اور خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں اس سیاسی خلا کو دینی اسلامی عناصر آگے بڑھ کر پر نہ کریں، تو ایک ایسے شخص کو پروپیگنڈے اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسے پُراسرار طریقے سے مشہور کیا گیا کہ بس قوم کو جس مسیحا کی تلاش تھی، و ہ آگیا۔ اب تمام مسائل حل ہوں گے اور پاکستان ایسی ترقی کرے گا کہ چند ہی برس میں ’’ایشین ٹائیگر‘‘ بن جائے گا۔ وہ نوجوان جس نے کرکٹ جیسے مغربی کھیل کے ذریعے شہرت حاصل کی، جس نے مغربی تعلیمی اداروں میں تعلیم و تربیت پائی، جس کا پورا پس منظر معاشرتی، ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے مغربی طرزِ فکر و عمل پر مشتمل ہے، جس نے مغرب میں معاشقے بھی لڑائے اور شادی بھی ایک یہودی خاندان میں کی، وہ نوجوان جس نے اسلام، اسلامی شعائر ، اسلامی نظریۂ حیات اور دینِ اسلام کو نہ بچپن میں اپنے گھر میں دیکھا، اور نہ اس کی آزاد اور خود مختار زندگی میں اس کے لیے کوئی گنجائش تھی۔ اس کام کے لیے نہایت موزوں تھا۔ ایک تو اس وجہ سے کہ اس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے قی
ام کا کریڈٹ بھی اس کے پاس تھا۔ انگریزی زبان پر اس کو عبور تھا اور انگریزی لب و لہجے میں وہ انگریزوں سے بھی بڑھ کر تھا۔ اس کو ایک ایسے مسلمان اکثریت رکھنے والے ملک پر مسلط کیا گیا، جس کی اسلامیت اور اسلامی جذبات سے مغربی ممالک تشویش اور خدشات محسوس کرتے ہیں۔ عمران خان کو بالکل مصنوعی اور سازشی طور پر ایوانِ اقتدار تک پہنچایا گیا۔ انتخابات میں اس کے لیے پُراسرار طور پر ٹیکنکل طریقے سے دھاندلی اور ریگنگ کی گئی۔ نتائج بدل دیے گئے اور وہ شخص جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا، جو سیاست کے ابجد سے بھی نا واقف تھا، اس کو نہ اس قوم کے مزاج، انداز و طوار اور تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق تھا اور نہ مسائل سے واقفیت۔ ملک کے تمام دین بیزار سیکولر مائنڈڈ اور آزاد خیال نوجوانوں کو پروپیگنڈے کے زور پر اس کے گرد جمع کیا گیا۔ پھر اس نے انتخابات جیتنے کے لیے جو حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے، وہ پاکستانی مسلم معاشرے کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ اس نے اتنے بلند بانگ اور بے سروپا دعوے کیے اور عوام کو سبز باغ دکھائے کہ آج جب اس کو اقتدار میں آئے سال ہونے کو ہے، اس کے تمام دعوے پادر ہوا اور جھوٹے ثابت ہوئے۔ البتہ اس نے اپنے سرپرستوں کی خواہشات کو پیشِ نظر رکھ کر پاکستانی معاشرے سے وہ دینی، مذہبی اور روحانی جذبات نکالنے کی شعوری کوششیں کیں۔ اس نے مغربی ایجنڈے کے مطابق قادیانیوں کو اہم اداروں میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ قادیانیوں کے بارے میں ابہام پیدا کیا۔ ختمِ نبوتؐ کے عقیدے کو انتہا پسندی سے تعبیر کیا۔ مدارس کے خلاف مغربی ایجنڈے کے مطابق نئی نئی شرائط لاگو کیں اور ان کا ناطقہ بند کیا۔
عمران خان مسائل کو کیا حل کرتے، بلکہ نئے نئے مسائل پیدا کیے۔ قوم پر مغربی ایجنڈ ا مسلط کیا۔ معاشی مسائل کا حل اس حکیم کے لونڈے کے سپر د کیا، جس کے سبب یہ ملک معاشی مسائل کے گرداب میں پھنس گیا تھا۔ نہ لوٹی ہوئی دولت کے حصول کے لیے کوئی عملی منصوبہ بنایا۔ بس ہر وقت زبان پر یہ رٹ کہ ’’چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘، ’’کرپشن نہیں کرنے دوں گا۔‘‘، ’’کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔‘‘ لیکن گذشتہ دورِ اقتدار کے تمام چوروں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا، اور نہ صرف شامل کیا بلکہ وزارتیں دیں۔ یہ خسرو بختیار، یہ غلام سرور، یہ فواد چوہدری، یہ زبیدہ جلال اور وہ زیادہ تر لوگ جو پرویز مشرف دورِ حکومت اور پیپلز پارٹی کی حکومت اور نواز حکومتوں میں شامل تھے۔ ان سب کو پاک صاف کرکے اپنی پارٹی میں شامل کیا۔
اب جو حقیقی مسائل ہیں۔ اس کے تو نہ اس کے پاس کوئی حل ہے اور نہ کوئی منصوبہ بندی، لیکن معاشرے کو مزید خلفشار اور افراتفری کا شکار کرنے کے لیے قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کر رہا ہے۔ ابھی دو روز پہلے لاہور کے ایک مجسٹریٹ نے دوسری شادی کے جرم میں ملوث ایک شخص کو قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ کیا یہ فیصلہ قرآن پاک کے اس صریح اور واضح حکم سے نہیں ٹکراتا جس میں مسلمانوں کو دو دو، تین تین اور چار شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ قرآنی الفاظ میں فَانکِحُوا مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَیٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ: (ترجمہ): ’’پس تم دو دو تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کرو۔‘‘ البتہ عدل و انصاف کی شرط رکھی گئی ہے۔ کیا دستورِ پاکستان میں یہ واضح دفعہ موجود نہیں کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کی جائے گی۔ تو تم کس طرح دو سری شادی کو جرم قرار دیتے ہو؟ اس کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی کی شرط لگاتے ہو۔ کیا یہ مغربی ایجنڈا نہیں کہ اٹھارہ سال عمر سے پہلے شادی کو ممنوع قرار دیا گیا؟ اللہ کے آخری رسول محمد مصطفی جن کا اسوہ حسنہ مسلمانوں کے لیے رول ماڈل ہے، کا فرمان ہے کہ جلدی شادی کرو اور بچے پیدا کرو۔ تاکہ قیامت کے روز اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں۔
شادی تو ایک بالغ نوجوان لڑکے اور لڑکی کے لیے نفسانی اور جنسی خواہشات سے تحفظ اور امن کے لیے ایک قلعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے قرآن میں نکاح کے لیے حصان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ بلوغ کی عمر لڑکیوں کے لیے بارہ تیرہ سال اور لڑکے کے لیے چودہ پندرہ سال مقرر ہے۔ پاکستان میں گھر بیٹھی بن بیاہی لڑکیوں کا مسئلہ تو ایک گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے۔ اوپر سے آپ کی یہ ناروا اور خلافِ عقل قانون سازی۔
اللہ پاک آپ کے ناپاک منصوبوں اور ہمارے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملائے اور جس طرح گذشتہ کروفر رکھنے والے اپنے زعم میں عقلِ کل حکمران عبرت کا نشان بن گئے ہیں۔ اسی طرح آپ بھی ایک تاریخ کے قبرستان کے کسی گم نام قبر میں دفن ہو جائیں گے، ان شاء اللہ!
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔