اللہ تعالیٰ محمود رفیق بابو کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، جن کی بذلہ سنجی ہر وقت تحاریر میں ہمارے کام آیا کرتی ہے۔ آج کل حضرتِ عمران خاں صاحب کی طرح ’’انصاف‘‘ کے تمام علم بردار اس وجہ سے تیس مار خاں بنے ہوئے ہیں کہ انہوں نے ستّر اکہتر سالوں سے ملک و قوم کو ’’لوٹنے والوں‘‘ کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’مملکتِ خداداد‘‘ پر ذکر شدہ عرصہ میں جمہوری طاقتوں نے ہی لوٹ مار کی ہے۔ ضیا اور مشرف ٹائپ مخلوق اس عمل سے مستثنا ہے۔ آج کی نشست چوں کہ حضرتِ عمران خاں اور اس کے پیروکاروں کے حوالہ سے مخصوص ہے، اس لیے دوسری مخلوق کے ذکر سے اجتناب برتتے ہیں، نہیں برتیں گے، تو پھر شائد ہم برتنے کے لائق نہ رہیں۔ کتنوں نے طرم خاں بننے کی کوشش کی، کہاں ہیں وہ آج؟ افسوس کے ساتھ بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
قارئین، اگر آج کل آپ انصاف کے کسی برائے نام علم بردار سے ازراہِ تفنن مہنگائی کا شکوہ کریں، تو وہ غصہ سے لال بھبوکا ہوکے ایک لمبی چوڑی تقریر سماعت فرمائے گا، جس کا لب لباب یہ ہوگا کہ ’’ستّر اکہتر سالہ گند کو صاف کر رہے ہیں، آخری چور کو سلاخوں کو پیچھے لے جا کر دم لیں گے، این آر او کسی کو نہیں ملے گا‘‘، وعلی ہٰذا القیاس۔ اگر آپ بہت ہی منھ پھٹ ہیں اور جواباًمشرف دور کی کابینہ اور اس دور میں بدعنوانی کی گنگا میں اشنان فرمانے والوں کا ذکر فرمائیں گے اورآپ بدقسمتی سے صحافی بھی ہیں، تو آپ پر فوراً سے پہلے ’’زرد صحافت‘‘ کے علم بردار کا ٹھپّا لگا دیا جائے گا۔ مَیں آپ کو خوش قسمت گردانوں گا، کیوں کہ آپ پر غدّارِ ملک، غدّارِ قوم یا ’’را‘‘، ’’این ڈی ایس‘‘ اور پتا نہیں کن کن ایجنسیوں کے غدّار کا ٹھپّا نہیں لگا۔ اس طرح اگر آپ ایک عام آدمی ہیں، تو آپ جیسا بے وقوف اور نرا احمق اور کوئی نہیں۔ کیوں کہ آپ ’’انصاف‘‘ کے علم برداروں جیسی فکر کیوں نہیں رکھتے، ان کی طرح سوچتے کیوں نہیں؟ جو جوتی انہوں نے پہنی ہے، وہ آپ کو فٹ کیوں نہیں ہے، جو قمیص انہوں نے پہنی ہے، وہ آپ پر پوری طرح فٹ کیوں نہیں ہے؟ عجیب آدمی ہیں آپ! ایسے میں احمد فرازؔ کا یہ شعر کوٹ کرنے لائق ہے، ملاحظہ فرمائیں:
جو کچھ کہیں تو دریدہ دہن کہا جائے
یہ شہر کیا ہے، یہاں کیا سخن کہا جائے
یہ کرپشن اور چور چور کا شور جب حد سے بڑھ گیا، تو پتا نہیں کیوں مجھے مرحوم محمود رفیق بابو کا وہ مشہور لطیفہ یاد آیا، جس میں ایک نائی گاؤں کے خان کے لیے زندگی کی سب سے بڑی تکلیف بن گیا تھا، لطیفہ ملاحظہ ہو: کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک گُل نامی نائی بہت مشہور تھا۔ ہر خاص و عام اس کی دکان پر حجامت اور بال بنوانے آتا تھا۔ گاؤں کا خان بھی مذکورہ نائی کی خدمات حاصل کرنے مہینا میں اک آدھ بار حاضری دیا کرتا تھا۔ دیگر نائیوں کی طرح موصوف بھی کسی کی حجامت بناتے وقت کوئی نہ کوئی کہانی شروع کر دیتا اور جیسے ہی کہانی ختم ہوتی، حجامت یا بال بھی تیار ہوتے۔ ایسے میں ایک دن صبح سویرے گاؤں کا خان دکان پر حاضری دینے آیا۔ اس وقت دکان پر خان اور مذکورہ نائی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ حجامت کے بعد نائی حسبِ معمول ناک کے بالوں کی اپنے مخصوص انداز سے صفائی کرنے لگا، ایسے میں بدقسمتی سے جیسے ہی ناک کے ایک لمبے بال کو نائی نے زور سے کھینچا، تو خان صاحب کی ہوا نکل گئی۔ پشتون چوں کہ اس عمل کو معیوب سمجھتے ہیں، اس لیے خان نے فارغ ہوتے ہی نائی کو کچھ روپے دیے اور اسے تاکید کی کہ گاؤں میں کسی کو اس بات کا پتا نہ چلے۔ اس نے روپے لیے اور خان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’نہیں جی! ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ ہمارے مائی باپ ہیں۔ بے فکر رہیں!
کہتے ہیں کہ اُس روز کے بعد جب بھی مذکورہ نائی کی کمائی معمول سے کم ہوتی، یا کوئی ضرورت پیش آتی،تو وہ خان کی خدمت میں سلام کہنے ضرور حاضر ہوا کرتا۔ خان ہر بار انتہائی شرمندگی سے نائی کا سامنا کرتا اور رخصتی کے وقت مخصوص رقم اُسے تھما کر ایک ہی تلقین کرتا کہ ’’امید ہے آپ میری لاج رکھیں گے!‘‘ نائی بھی رٹا رٹایا جواب منھ پہ دے مارتا: ’’نہیں جی! ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ ہمارے مائی باپ ہیں۔ بے فکر رہیں!‘‘
کہتے ہیں کہ ایک عرصہ تک تو نائی خود ’’سلام‘‘ کہنے حاضر ہوا کرتا، پھر آہستہ آہستہ نائی کا بڑا بیٹا اور اس کا بھائی بھی خان کی خدمت میں بلاناغہ ’’سلام‘‘ کہنے حاضر ہونا شروع ہوئے۔ جب ہر مہینا ایک دو نہیں بلکہ تین تین بن بلائے مہمان، خان کے حجرے پر بلاناغہ حاضری دیتے اور اس بیچارے کی جیب پر ہاتھ صاف کرتے، تو وہ بھی انسان تھا، ایک دن اس کا پارہ چڑھ گیا اور نائی کو بھری محفل میں پکار کر کہنے لگا: ’’بھئی، آپ لوگ کچھ اور کام بھی کرتے ہیں، یا اُسی ایک ہوا ہی کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے؟‘‘
کچھ ایسی صورتحال آج کل تحریک انصاف والوں کی ہے۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، آپ ’’انصاف‘‘ کے کسی علم بردار سے پوچھیں کہ ایسا کیوں ہے، وہ لطیفہ میں ذکر شدہ نائی کی طرح دانت نکال کر جواب دے گا کہ ’’الحمد اللہ، آدھے چور خاں صاحب کی برکت سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔‘‘ آپ جواباً اک اور سوال داغیں کہ حضرت، ان باقی چوروں کا کیا ہوگا، جو انصاف ڈٹرجنٹ بار سے دھل کر
اس پر چم کے سائے تلے ہم ایک ہیں
کا ورد لگا کر ہمارا منھ چڑا رہے ہیں؟
قارئین، دوسرا سوال آپ اپنی ضمانت پر کیجیے گا، کیوں کہ اُس کے بعد ہوسکتا ہے کہ موصوف کے ساتھ دلیل نہ ہو، اور جب ’’مملکتِ خداداد‘‘ میں دلیل نہ ہو، تو پھر جو زبان استعمال کی جاتی ہے کہ الامان و الحفیظ! اور ایسی زبان کے جواب میں فارسی کا اک قول مشہور ہے: ’’جوابِ جاہلاں باشد خموشی۔‘‘
قارئین کرام! آدھے چور سلاخوں کے پیچھے کیے جاچکے ہیں۔ آدھے انصاف ڈٹرجنٹ بار سے دُھل کر ملک چلانے کی سعی فرما رہے ہیں۔ جو آدھے اندر ہیں، ان سے کتنی ریکوری کی جا چکی ہے؟ اگر نہیں ہوئی، تو ان پر بھی عوام کے خزانے سے سلاخوں کے پیچھے بھی خرچہ اٹھ رہا ہے۔ اب یہ چور سپاہی کا کھیل ختم ہوجانا چاہیے۔ اس کھیل سے ڈالر نیچے نہیں آنے والا، اس کھیل سے ہم غریب، بے بس و لاچار قوم کا پیٹ نہیں بھرنے والا، اس کھیل سے ادویہ کی قیمتیں نہیں گرنے والی، اس کھیل سے ملک کا نام روشن نہیں ہونے والا۔
خدارا، اے انصاف کے علم بردارو! ملک و قوم کا سوچو، ایسا نہ ہو کہ کل جمہوری تاریخ میں آپ اسی طرح معتوب ٹھہرائے جائیں، جس طرح ضیااور مشرف ٹھہرائے جا چکے ہیں، یا ان کی چولیں ہلانے والے آج ٹھہرائے جا رہے ہیں۔ تاریخ کے طالب علموں سے زیادہ بہتر کون جانتا ہوگا کہ ’’تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی!‘‘
آج ذکر شدہ دونوں ’’شخصیات‘‘ ذیل میں دیے جانے والے شعر کے مصداق ہیں کہ
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہو
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔