سابق صدر غلام اسحاق خان کہا کرتے تھے: ’’ایک سیمینار اس پر بھی ہونا چاہیے کہ سیمینار نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
جب کہ مَیں سمجھتا ہوں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ایک پریس کانفرنس اس پر بھی ہونی چاہیے کہ پریس کانفرنس نہیں ہونی چاہیے۔ اب دیکھیے ناں ہماری سیاسی زندگی زلزلوں اور حادثوں سے بھری پڑی ہے۔ عوام ان زلزلوں کا صرف نظارا ہی نہیں کرتے بلکہ ان قومی حادثوں میں نقصان بھی برابرا کا اٹھاتے ہیں ۔ سابق وزیراعظم نواز شریف جیل میں ہیں اور ان کی بیٹی مریم نواز دن رات اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح اس کے والد صحیح سلامت زِنداں سے نکل آئیں اور یہی وجہ ہے کہ پرسوں انہوں نے اور مسلم لیگ کے دوسرے سرکردہ راہنماؤں نے ایک ایسی پریس کانفرنس منعقد کی، جس کی وجہ سے اقتدار کے ایوانوں کے ساتھ ساتھ ملک کے عام جھونپڑیوں میں بھی بھونچال آگیا۔
مریم نواز صاحبہ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے انکشافات کا ذکر کیا، جس کو سن کر شکوک وشبہات اور بھی بڑھنے لگے ہیں۔ مذکورہ پریس کانفرنس میں ارشد ملک کے حوالے سے یہ بات بھی بتائی گئی کہ ان کا ضمیر اب جاگ چکا ہے، اور ان کو ڈراؤنے خواب تک آنے لگے ہیں۔
بھئی، مذاق کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، لیکن اس حد کو دونوں طرف سے عبور کیا جا رہا ہے۔ عمران خان صاحب اقتدار میں اگر موجود ہیں، تو اس کی بنیادی وجہ عام لوگوں کی وہ توقعات ہے جو انہوں نے پی ٹی آئی سے باندھ رکھی تھیں۔ عمران خان صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’مَیں عام آدمی کی زندگی آسان بناؤں گا، اور جن لوگوں نے ملک کا پیسا کھایا ہے، ان سے ایک ایک پائی کا حساب لوں گا۔‘‘ لوگوں نے یہ سنا، اس پر یقین کیا اور دھڑ ادھڑ ووٹ دے دیے۔ صرف اس امید پر کہ اور بس اب ہم تھک چکے ہیں۔ زندگی کی خاطر کوشش میں بازو شل ہوچکے ہیں، لیکن ہوا کیا؟ خان صاحب آئے اور عوام کی زندگی روزِ روشن کی طرح اور بھی اجیرن بن گئی۔خان صاحب کو دیکھ کر اب بھی نہیں لگ رہا کہ اس ملک اور عوام کی کایا پلٹ جائے گی۔
یادش بخیر! خان صاحب جب ڈی چوک میں ہاتھ میں مائک تھامے نمودار ہوتے، تو ڈی جے ساتھ میں جذباتی نغمے اور ساز کی ملاوٹ کر دیتا، اور ماحول ایسا بن جاتا کہ ہم جیسے جذباتی لوگ تو آنسو نہیں روک پاتے تھے۔ ایک امید سی بن گئی تھی کہ چلو ایک نجات دہندہ تو مل گیا ہے اس قوم کو۔ اَب جیسے ہی یہ آئیں گے، حالات سدھر جائیں گے، لیکن ہوا کیا!
وہی جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن والے ہیں، جن کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر کس طرح حکومتی بنچوں پر بیٹھنے والوں سے پیش آنا ہوتا ہے۔ اس نئی پریس کانفرنس کو دیکھتے ہوئے بھلا کوئی کیوں یقین کرے کہ جو کہا گیا ہے، وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ احتساب عدالت کے جج کو اب یوں اچانک کیوں یہ احساس ہوا کہ میں نے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے، کہ تین بار ملک کے وزیر اعظم کو جیل کی تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ دوسری بات مریم نواز اور شہباز شریف کو نواز شریف کی جتنی فکر ستا رہی ہے، کیا اتنی فکر کبھی سسک سسک کر مرنے والے عوام کی ان کو ہوئی ہے؟ مریم نواز نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’نواز شریف نے اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔‘‘
اللہ کی طرف دھیان اگر آج سے بیس سال پہلے چلا جاتا، تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ ان ساری باتوں سے یہی باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ شریف فیملی کے تمام لوگ دودھ کے دھلے ہیں اور پاکستان نے اگر ان کے ادوار میں ترقی نہیں کی ہے، اور اگر عوام کی زندگی میں آسانیاں نہیں آئی ہیں، تو یہ قصور بس عوام ہی کا ہے۔
برسبیل تذکرہ، پچھلے دنوں ایک دوست نے سوشل میڈیا پر ولی خان صاحب کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’ایک بار ایک صحافی نے آپ سے پوچھا کہ قوم تو مؤنث ہے، آپ بار بار اس کو مذکر ہی کیوں استعمال کرتے ہیں؟‘‘ یہ سن کر ولی خان صاحب نے برجستہ جواب دیا: ’’میرا قوم مذکر ہے، آپ کی مؤنث ہوگی!‘‘ اس سوشل میڈیائی سٹیسٹس پر لوگ واہ واہ کرتے جارہے تھے، اور میں حیران تھا۔ کیوں کہ دماغ میں ایک عجیب سا خیال آیا۔ ہم نے ان سات عشروں میں سیاسی راہنماؤں کے صرف برجستہ جوابات، جذباتی تقاریر، پریس کانفرنسز، سیمینارز اور افطار پارٹیاں ہی دیکھی ہیں۔ ہم صرف ترقی کا سوچ سکتے ہیں، اس کو شائد کبھی بھی نہ دیکھ پائیں۔ جن لوگوں سے ہم امید لگائے بیٹھے ہیں، ان کو ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے سوا اور کچھ آتا ہی نہیں۔ وجہ جس کی یہ ہے کہ ہم تقاریر اور جذبات کی رو میں بہنے والے لوگ ہیں۔ ہم حقیقت کا سامنا اور ادراک کرنے کے اہل ہی نہیں۔
اس مذکورہ پریس کانفرنس کو دیکھ کر اب یہی ہمارا واویلہ ہوگا کہ نواز شریف کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔ ہم ماڈل ٹاؤن کے ان شہیدوں کا بہتا ہوا خون بھول جائیں گے۔ ہم پنجاب اور کراچی کی دیہات میں زندگی کی معمولی سی سہولت کو ترسنے والے ان غریبوں تک کو بھول جائیں گے جن کی زندگی اور کچھ نہیں بس ایک مصیبت ہی ہے۔
اللہ کرے کہ مملکتِ خداداد پاکستان ضمیر فروشوں سے نجات پائے، اور اگر یہی روش ان لوگوں کی برقرار رہی، تو میرا خیال ہے کہ پریس کانفرنسز اور تقاریر پر مکمل پابندی ہی لگنی چاہیے۔ کیوں کہ ان چیزوں سے اور کچھ نہیں ملتا بس ڈراؤنے خواب ہی آیا کرتے ہیں۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔