موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ہی سے معاشی طور پر ہمارے ملک کی صورتحال روزافزوں تشویشناک ہوتی چلی جارہی ہے، اور یہ تشویش حزبِ اختلاف اور حکومت وقت کے ووٹرز دونوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ حزبِ اختلاف کے ووٹرز کو تو اپنے قائدین کے بیانات اور مارکیٹ صورتحال کی ان کی زندگیوں پر براہِ راست اثر انداز ہونے کی بنا پر تپ چڑھی ہوئی ہے، لیکن تبدیلی کے علمبرداروں کا مخمصہ دو رُخا ہے کہ جن مسائل کے حوالے سے انہیں ایک آسان حل جلسوں اور دھرنوں میں پیش کیا جاتا تھا، وہ بھی کہیں پہ عملاً نظر نہیں آتا، اور گلہ شکوہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ معاشی طور پر دونوں فریق اس کا مختلف انداز سے تجزیہ و تحلیل کر رہے ہیں کہ جہاں ایک طرف ڈیفالٹ اور معیشت کے بیٹھ جانے کی وعید سنائی جا رہی ہے، تو دوسری طرف ’’گھبرانا نہیں‘‘ کی ورد بھی ’’زبان زدِ یوتھ‘‘ ہے۔ لیکن اس ساری صورتحال کا ایک رُخ سماجی سیاسیات کے حوالے سے بھی ہے کہ یہ پالیسیاں جو بنائی جارہی ہیں،کس طبقۂ آمدن کے لوگوں کے لیے یہ کتنا کچھ مفید یا نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں؟
قیامِ پاکستان کے بعد اس ملک میں نوکر پیشہ اور درمیانے طبقے کے تاجروں کے وارے نیارے ہوگئے۔ درمیانے طبقے میں خاص طور پر سول اور فوجی بیوروکریسی، اقتدار کے غلام گردشوں کے ایسے اسیر بن گئے کہ غلامی کی خصلتوں اور عادتوں کی بنا پر خود کو بادشاہ اور بادشاہ گَر سمجھنے لگے اور اس کی بنیادی وجہ انگریزوں کے غلام سازی کے کارخانوں میں ان کی پیداوار تھی۔ جہاں انہیں مخصوص مقاصد کے لیے تیار کیا جاتا تھا اور سب سے پہلا سبق انہیں یہ اَزبر کروایا جاتا تھا، کہ اپنے عقیدہ و مسلک اور اپنے مذہب و ضمیر کی آواز پر کان مت دھرو۔ عوام پر اعتبار کرو اور نہ ان سے عزت کے ساتھ ہی پیش آؤ، بلکہ تمہاری اٹھان اور آن بان شان کچھ ایسی ہونی چاہیے کہ تم ایک الگ مخلوق نظر آؤ۔ اس قسم کے ماحول سے نکل کر جب وہ مقتدرہ میں آشامل ہوئے، تو آزادی کے بعد آزادیوں کو زیادہ کرنے کی بجائے ان پر قدغن لگا کر پابندیوں کا عمل شروع کردیا۔ علاوہ ازیں آزادانہ فیصلے کرنے، سوچ سمجھ کر پالیسیاں بنانے اور وسایل کی منصفانہ تقسیم کی ان کی چوں کہ بنیادی تربیت ہی نہیں تھی، اس لیے الہڑ پن اور ناعاقبت اندیشی کے ایسے المیے وجود میں آگئے، جو ہماری تاریخ کا حصہ ہونے کے باوجود باعثِ ننگ و عار ہیں۔
اس سارے منظر نامے میں سیاسی قیادت کی نااہلی اور محض طبقۂ اعلیٰ (Elite) تک اس کی تحدید، سرمایہ دار و صنعت کار طبقہ کی ہوس و رشوت ستانی اور دانشوروں کی کاسہ لیسی سے ایسا سامان پیدا ہوا کہ جاگیر دار، وڈیروں اور سول و فوجی افسر شاہی کی صورت میں ایک نیا طبقہ وجود میں آگیا، جس کی بنیادی اُٹھان متوسط طبقہ کی مرہون منت تھی، لیکن استحصال وہ طبقۂ اعلی کی بدترین صورت کی مثل کرنے لگے ۔ پاکستان کا یہ نیا مقتدر طبقہ اتنا صاحبِ ثروت و جبروت ہوگیا کہ اگر متوسط اور ادنیٰ طبقے سے کہیں کوئی جینوین تحریک یا مطالبہ سامنے آبھی گیا، تو مسلک، قومیت، وطنیت اور خودساختہ غیر حقیقی نعروں اور معیارات کی بنیاد پر اس کو دبا دیا گیا، اور دوبارہ سے اس کے سر اٹھانے کے تمام امکانات کو مسدود کردیا گیا۔
اس پس منظر میں اگر موجودہ ’’تبدیلی سرکار‘‘ کو ملاحظہ کیا جائے، تو وہی پرانے طبقۂ اعلیٰ کے خوشہ چیں ہی براجمان نظر آئیں گے، جو یا تو خود طبقۂ اعلیٰ میں جا شامل ہوئے ہیں، یا اسی پراسیس سے گزر رہے ہیں۔ اگر حنیف رامے، معراج خالد، جہانگیر بدر، علی محمد خان، جاوید ہاشمی اور پرویز رشید جیسے کچھ سر پھرے اتفاقاً گھس بھی جائیں، تو عبرت کا نشان بنا دیے جاتے ہیں۔
حفیظ شیخ، شبر زیدی، زبیدہ جلال، بابر اعوان، ہمایوں اختر، اعجاز الحق، شہزاد ارباب، پرویز خٹک، شیرین مزاری، خسرو بختیار اور شاہ محمود قریشی اسی مقتدرہ کے آشیرباد حاصل کیے ہوئے لوگ ہیں جن کے سروں پر اقتدار کا ہما بٹھایا گیا ہے۔ اب یہ لوگ نہ تو ہم میں سے ہیں، اور نہ ان کی اقدار، روایات، سوچ اور ترجیحات ہی جمہور سے کوئی میل کھاتی ہیں۔ بلکہ بسا اوقات ان کی اور عوام کی ترجیحات مخالف سمت میں گامزن ہوتی ہیں، جس سے مفادات کا ٹکراؤ وجود میں آتا ہے اور اس ٹکراؤ میں بدقسمتی سے جیت اسی مقتدرہ طبقہ کی ہوتی ہے۔ یہی مقتدرہ پھر اپنے اللّے تللّوں کوپورا کرنے کے لیے تمام تر بوجھ عوام کو منتقل کرتی ہوتی ہے، بغیر اس بات کی پروا کیے کہ ان کے کندھے کتنا کچھ بوجھ سہار سکتے ہیں؟ عوام کو ایک وقت کی روٹی کھانے کی نصیحتیں سامنے آتی ہیں، جب کہ چینی مافیا اور تیل و تمباکو والوں کو بیک جنبشِ قلم اربوں روپوں کے فوائد سے نوازا جاتا ہے ۔
جب تک ہم اپنی تہذیب و تمدن (جو کہ ایک جان دار اور متنوع گلدستہ ہونے کی بنیاد پر انتہائی باصلاحیت اور امکانات سے بھرپور ہے) سے اپنا رشتہ استوار نہیں کریں گے، اور مختلف سمتوں میں جاری حرکتوں کو بقائے باہمی اور عدل و انصاف کی بنیاد پر ایک لڑی میں پرو کر نشانِ منزل کی جانب نہیں مرتکز کریں گے، تب تک سفر دائروں ہی میں جاری رہے گا اور حقیقتاً کسی کے لیے بھی ترقی و بہبود کا باعث نہیں بنے گا۔
کیوں کہ ظلم کہ بنیاد پر کی گئی لوٹ الٹا باعثِ ندامت و پشیمانی ہی ہوتی ہے۔

………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔