کچھ پروفیسر فضل کبیر کے بارے میں

بعض شخصیات پہ لکھتے وقت فکر و نظر کے تمام تخلیقی سوتے خشک ہوجاتے ہیں۔ خامہ فرسائی کے لیے لفظ نہیں ملتے۔ تخیلاتی اُڑان جواب دے جاتی ہے۔ ساری علمیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ انسانی ذہن، کورے کاغذ کا سا ہوکے رہ جاتا ہے۔ یہی خدشہ، یہی دھڑکا اور یہی ادھیڑ بن رہتی ہے کہ جو لفظ لکھ رہا ہوں۔ کیا اُس کے شایانِ شان ہیں بھی کہ نہیں۔ لفاظی کا چکما بھی نہیں دیا جاسکتا کہ وہ لفظوں کی پرتوں کے پیچھے بھی جھانک سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن دل پھر بھی محبت اور عقیدت کے ہاتھوں لاچار، مجبور اور بہ ضد ہوتا ہے۔ اُسے اپنا آپ بھی تو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔
آج پروفیسر فضل کبیر پہ قلم اُٹھاتے ہوئے یہی کیفیت طاری ہے۔ دل کے نہاں خانوں میں اُس کی یاد کی پروا اکثر چلتی رہتی ہے۔ دل میں ٹھانی ہے کہ آج کچھ بھی ہو دلی کیتھارسس کے لیے قلم ضرور گھسیٹنا ہے کہ کچھ سکون ملے۔ قصہ کوتاہ، آج سے کوئی ڈیڑھ دو دہائی پہلے کی بات ہے جب ہم جواں اور فضل کبیر نوجواں ہوا کرتا تھا۔ وہ ہمارے گاؤں (عالم گنج) کے لبِ دریا سبزہ زار گراؤنڈ میں اپنی کرکٹ ٹیم کے ساتھ میچ کھیلنے آیا کرتا تھا۔ کیا متین، فہیم اور سلجھا ہوا نوجوان تھا۔ باتوں میں رکھ رکھاؤ، سلیقہ اور متانت ایسی کہ دل داد دیے بغیر نہ رہتا۔ اُس کے ہاتھ میں کوئی کتاب یا ڈائجسٹ بھی ہوتا۔ یہی لت ہمیں بھی تھی۔ دل میں یہی ٹھانی تھی کہ اس شخص سے پینگیں دو حوالوں سے بڑھاؤں گا۔ ایک تو یہ کہ اس کی بھلے مانسی، رکھ رکھاؤ اور سلیقہ شعاری قابلِ تقلید تھی۔ دوم کتابوں کا چسکا بھی تو پورا کرنا تھا، لیکن ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں‘‘ کے مصداق آج تک یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ اب تو وہ پروفیسر ہے اور پروفیسری کا نشہ (چند ایک کے ما سوا) سر چڑھ کے بولتا ہے۔ اکثر برخود غلط یا نرگسیت کے شکار پروفیسروں کو اپنا آپ تیس مار خاں نظر آتا ہے، اور باقی لوگ کیڑے مکوڑے۔ ہر چند کہ فضل کبیر اُن میں سے نہیں۔ میری اُس سے پینگیں تو کیا بڑھتیں، ڈھنگ سے پانچ منٹ تک بیٹھنا بھی نصیب نہیں ہوا، لیکن میرے دل میں اُس کے لیے محبت ویسے ہی جواں ہے جیسے جواں تھی۔ وہ بھی بچھے جاتا ہے، لیکن آج بھی حالت فیضؔ کے اس شعر جیسی ہی ہے کہ:ـ
سلجھائیں بے دلی سے، یہ الجھے ہوئے سوال
واں جائیں، یا نہ جائیں، نہ جائیں کہ جائیں ہم
میری اُس سے ملاقاتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے اُس پہ کچھ لکھنے کا بھی حق حاصل نہیں۔ زیادہ نہ سہی کچھ تو لکھے دیتے ہیں۔
اُس کی شخصیت بڑی ہی جاذبِ نظر ہے، متاثر کن بلکہ دل میں کھب جانے والی۔ یہ نکلتی ہوئی لمبی تڑنگی جوانی، چھریرا بدن، ریشم ایسے سیدھے بال، پتلی کمر، چوڑے شانے، چکلا سینہ، بے نام پیٹ، لمبے بازو، مچلتی مچھلیاں، مضبوط ہاتھ، تگڑی گرفت، سر اُٹھا کے دیکھو تو سپید چہرے کی جبیں پہ سیدھی مگر شریر مچلتی لٹیں، اٹکھیلیاں کھیلتی نظر آئیں گی۔ خوبصورت آنکھوں کے نیچے ستواں ناک، عنابی ہونٹ، کلین شیو، لمبی گردن، بہت ہی خوبصورت آواز جس میں ڈبل ایکو جیسی لوچ۔ یہ ذہین آنکھوں اور فطین دماغ والا دلکش و دلربا شخص بلکہ بانکا اور سجیلا نوجوان کوئی اور نہیں پروفیسر فضل کبیر ہے، جو میری ہی تحصیل (چارباغ) کا رہنے والا ہے۔ کیا بلا کا حافظہ رکھتا ہے۔ آج کل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج سوات میں اُردو کا پروفیسر ہے۔ اُردو ہی اُس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ کتابیں ہی اُس کی مونس و رفیق ہیں۔ اُسے ہزاروں شعر یاد ہیں۔ سیکڑوں حوالے دے مارتا ہے۔ کسی کتاب کا نام لو، پرتیں وا کرتا چلا جاتا ہے۔ مغربی تنقید ہو یا مشرقی تنقید۔ ادبِ عالیہ ہو یا پاکستانی ادب۔ فیچر، کالم، تبصرہ ہو یا کسی رسالے کا حوالہ سبھی جہتوں میں طاق و مشتاق ہے۔ قریباً ہر معیاری ناول کے کردار اُسے ازبر ہیں۔ ہر اچھے افسانے کا مرکزی خیال اُسے یاد ہے۔ تحریر، انشائیہ ہو یا فکاہیہ، سنجیدہ ہو یا مزاحیہ آپ کی نظر سے گزر چکی ہوگی۔ نئے رجحانات ہوں یا ادبی تنازعات، لسانیات ہو یا اقبالیات، ساختیات ہو یا پس ساختیات ہر موضوع پہ آپ کی گرفت کا مل ہے۔

پروفیسر فضل کبیر ایک سیمینار سے خطاب کر رہے ہیں۔

گرفت پہ یاد آیا۔ جب بھی آپ سے ہاتھ ملایا جائے مقابل کی کلائی پہ آپ کے ہاتھوں کی گرفت اتنی مضبوط ہوتی ہے جیسی شعر و ادب پہ۔ مجھ جیسے ناتواں کی تو ہڈیاں چٹخنے لگتی ہیں۔ سنا ہے احمد فراز کی بھی ایسی ہی مضبوط گرفت تھی۔
سچ پوچھئے تو مجھے آپ کی آواز بہت پسند ہے۔ اس میں اِک جادوئی اثر ہے۔ میں اسے کوئی نام نہیں دے پارہا کہ اسے لوچ دار کہوں، خمار آلود کہوں یا رومان پرور۔ اور نہ ہی میں اس کی مثال کہیں سے ڈھونڈ کے لارہا ہوں۔ یہاں رانی مکھرجی کی آواز سے مشابہت بھی مناسب نہیں لگ رہی جب کہ کوئی راجہ مکھرجی ذہن میں نہیں آ رہا۔ فرازؔ سے معذرت کے ساتھ بس اتنا ہی کہوں گا کہ:
’’اُس کی آواز کبھی غور سے سنی ہے فراز‘‘ؔ
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
ایم فل میں آپ کے تحقیقی مقالے کا عنوان ’’پختونخوا کے نمائندہ غزل گو شعرا پر ترقی پسند تحریک کے اثرات‘‘ تھا، جب ہ پی ایچ ڈی میں بھی آپ کا داخلہ ہوگیا ہے۔
اک قصہ سنیے! پچھلے دنوں اُس نے میرے پیچھے بی ایس (اُردو) کا اک سٹوڈنٹ لگا دیا اور وہ بھی ٹھیک ٹھاک داڑھی والا شیخ۔ کہنے لگا: ’’سر جی! مجھے اسائمنٹ کے لیے آپ کے انٹرویو لینے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’خدا کے بندے! کسی ایسے شخص کا انٹرویو لو جس کا کوئی نام وام ہو۔ میری کیا کنٹری بیوشن ہے؟ دو چار اردو کی کتابیں پڑھ کے کوئی پھنے خاں نہیں بن جاتا۔‘‘ لیکن وہ بہ ضد کہ سر، مجھے آپ ہی کا نام دیا گیا ہے۔ یہ شاید کبیر کی محبت تھی ورنہ ’’کیا پدی کیا پدی کا شوربا۔‘‘
چارباغ میں اُس کے تین دوست ہیں۔ فراز، مراد اور شفیق۔ اس رباعی میں مخمس بننے کا کوئی سوچے بھی نا۔ اسی لیے ہم اُس کے چھوٹے بھائی الیاس سے مل کے پیاس بجھالیتے ہیں۔ وہ بھی اُردو کا پاریکھ ہے۔ نرم خو، شفیق اور ملنسار۔
کبیر فنِ تقطیع جیسے ادق ہنر پہ بھی دسترس رکھتا ہے۔ اس معاملے میں کسی کا خیال نہیں رکھتا۔ خود بھی شعر کہتا ہے لیکن سید عابد علی عابدؔ کی طرح کہ فنی چوکھٹ میں بھی پورا ہو اور خیال بھی پھسلنے نہ پائے۔ حوالے کے لیے اُن کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
خداوندا، تیرے امروز و فردا
میرے جذبات سے کھیلے ہوئے ہیں
لو جی، تعریف تو بہت ہوگئی اب تھوڑی سی چٹکی لیتے ہیں۔ وہ یوں کہ موصوف کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ادب میں ادب کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔ کسی کو رعایتی نمبر نہیں دیتے۔ چاہے سینئر ہو یا جونیئر، رگید ڈالتے ہیں اور حوالے میں انور شعورؔ کا یہ شعر کہہ ڈالتے ہیں کہ:
دوست کہتا ہوں تمہیں شاعر نہیں کہتا شعورؔ
دوستی اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔