وفاقی وزیر زرتاج گل کی اپنی وزارت کلائی میٹ چینج کے لیٹر پیڈ سے اپنی بہن کے لیے نیکٹا کو "ری کمنڈیشن ڈائریکٹیوز” اور موصوفہ کی بہن کی ڈیپوٹیشن پر تقرری، "ٹیلی فونک کنورسیشن” کا حوالہ اور اپنی بہن کے لیے سفارش کرنا اور محکمے پر اثر انداز ہونا کھلی اقربا پروری نہیں تو اور کیا ہے؟ سیاسی اور اخلاقی طور پر زرتاج گل وزیر کی پوزیشن کمزور ہے۔ موصوفہ آخری روزہ تک اپنے اس فیصلے پر ڈھٹائی کے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک کہرام سا مچ گیا اور تب کہیں جا کر وزیر اعظم عمران خان کو نوٹس لینا پڑا۔ میرا خیال ہے کہ ان حالات میں محترمہ کا وزارت سے چمٹے رہنا تحریک انصاف کو مزید دلدل میں لے جانے کے مترادف ہے۔ برائے نام ’’میرٹ، میرٹ‘‘ کی مالا جھپنا کافی نہیں ہوتا۔ میرٹ پر عمل کرنا اور دکھانا بھی ضروری ہوتا ہے۔
قارئین، یہ تو ایک کیس سامنے آیا ہے۔ سیکڑوں لوگوں کی بھرتیاں ایسے ہی میرٹ کے بغیر سفارش اور اقربا پروری پر ہوتی ہیں۔ اس کو کہتے ہیں "اختیارات کا غلط استعمال” یا دوسرے الفاظ میں طاقت کا غلط استعمال۔
حکومت کے مسئلے صرف یہاں تک نہیں بلکہ تاجر برادری بھی ناراض ہے۔ جوڈیشری کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مد میں بدظن کیا جاچکا ہے۔ "لائرز موومنٹ” تیزی کے ساتھ احتجاج کی تیاریوں میں مصروف ہے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے 14 جون تک ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ تقریباً تمام صوبائی بار کونسلوں، ضلعی اور تحصیل بار ایسوسی ایشنوں نے بھی حکومتی ریفرنس کے خلاف اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں قرار دادیں منظور کرلی ہیں۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کی اپوزیشن کی متحدہ پارٹیوں نے بھی عید کی چھٹیوں کے بعد احتجاج کی کال دی ہے۔ بلوچستان کے سردار اختر جان مینگل نے بھی صوبائی اور وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قومی اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کو صرف دو ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ سو اس طرح سردار اختر جان مینگل بھی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ اس دنگل میں کودتے نظر آ رہے ہیں۔
دوسری طرف حکومتی صفوں میں بھی اختلافی صورتحال سامنے آ رہی ہے، جس کا اندازہ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ "اہم فیصلے ہوجاتے ہیں، پتا ہی نہیں چلتا۔ سابقہ وزارت میں غیر منتخب افراد نے مداخلت کی۔ وزارتوں کی تبدیلی بھی انہی غیر منتخب افراد کی وجہ سے تھی۔ ہماری فوج کو پالیسی سٹیٹمنٹ نہیں دینا چاہیے۔ فوج سب سے زیادہ طاقتور اور منظم ادارہ ہے، لیکن وہ ملک کو نہیں چلا سکتا۔” اس طرح کے بیانات سے غیر منتخب اداروں اور حکومت کے مابین چپقلش کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
قارئین، حالات اُس وقت ڈرامائی صورتحال اختیار کرگئے، جب پی ٹی ایم کے سرکردہ مشران، ممبرانِ قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر جو کہ متحدہ اپوزیشن کے ساتھ زرداری ہاؤس میں بلاول بھٹو کی سربراہی میں افطاری میں بیٹھے اور بعد ازاں دوسرے اور تیسرے روز فرشتہ مومند کی وحشت ناک شہادت کے بعد محسن داوڑ اور علی وزیر اسلام آباد کی سڑکوں پر حکومت کے سامنے آئے اور وفاقی حکومت اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے، جس پر حکومت نے ایکشن لیا اور کچھ مطالبات کے ساتھ بظاہر دھرنا ختم کیا گیا، لیکن اس کے بعد مذکورہ ایم این ایز کے خلاف "زرد صحافت” کے علمبردار کچھ میڈیا ہاؤسز نے حکومت کے ایما پر پی ٹی ایم اور مذکورہ ممبرانِ قومی اسمبلی کے خلاف بے بنیاد اور بے سروپا پروپیگنڈا شروع کیا، جس کے برخلاف سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف کافی لعن طعن اور فقرے بازی ہوئی۔ فرشتہ مومند کا اندوہ ناک واقعہ 21 مئی کو رونما ہوا۔ اس کے بعد 26 مئی کو لعن طعن، مارا ماری، حب الوطنی اور غداری کا دوسرا دور وزیرستان کے "خڑ کمر” میں اس وقت شروع ہوا، جب مذکورہ ایم این ایز ایک دھرنے میں شامل ہونے کے لیے قافلے کے ساتھ جانے لگے، تو سیکورٹی فورسز نے ان کو روکا۔ ویڈیو فوٹیجز میں ایم این اے محسن داوڑ اور علی وزیر چیک پوسٹ پر پھولوں کا ہار پہن کر سیکورٹی ایجنسیز کے ساتھ گفت و شنید اور درخواست کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں دھرنے کے شرکا کے پاس جانے دیا جائے، تاکہ ان لوگوں کے مسائل سن لیے جائیں۔ اس وقت ان کو جانے دیا جاتا ہے، لیکن دوسرے ہی لمحے موصوف کے بقول ان پر پیچھے سے حملہ کیا جاتاہے، جس کے نتیجے میں بقولِ مذکورین تیرہ افراد شہید اور پینتالیس زخمی ہوئے (بعد میں اس تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا)۔ ایک بار پھر "کنٹرولڈ میڈیا” نے حقائق کو توڑ مروڑ کر اُچھالا اور منفی رپورٹنگ کی حد کردی۔ علی وزیر کو اس کے ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا۔ حالات کشیدہ ہوئے، حتی کہ کرفیو نافذ کیا گیا، جو کہ تاحال جاری ہے۔ ادھر محسن داوڑ سیکڑوں افراد کے ساتھ دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ تاہم بعد میں اس نے ازخود گرفتاری پیش کی۔
اس صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد آدمی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ خدانخواستہ اس ملک میں احتجاج کا مطلب سیدھا گولی مارنا تو نہیں ہے؟ کیا یہ حب الوطنی ہے کہ ہر قسم ظلم پر چُپ کا روزہ رکھ لیا جائے، اور اپنے حقوق کی بات کرنا غداری سمجھا جائے؟ ان حالات میں زبان کی تالہ بندی ہنوز جاری ہے۔ سوچنا اور عقل سے کام لینا منع ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ بعض "سرکاری ٹیلی وِژنز” کی لمبی زبان نفرت، عداوت، بدظنی اور لسانیت کو ہوا دے کر قومی بگاڑ کو سر انجام دینے جا رہے ہیں۔ "محب وطن غداروں” پر ان گناہوں کا بوجھ بھی لادا جا رہا ہے جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔
قارئین، میں سمجھتا ہوں کہ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی دہشت گردی کے نام پر، تو کبھی قوم پرستی اور لسانیت پرستی کے نام پر مزید خون خرابہ ریاست کے حق میں اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ یہ حب الوطنی کا ڈیمانڈ ہے کہ سب کو سنا جائے، اور سب کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں۔ اس سے ریاست مزید محفوظ ہوگی۔ اور مرنے مارنے سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ آخری اطلاعات تک محسن داوڑ اور علی وزیر سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں اور پورے شمالی و جنوبی خیبر پختونخوا اور عالمی طور پر تحریک سے وابستہ کارکنان کی ریلیاں جاری ہیں، جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ ان واقعات کے بعد سے پشاور اور لور الانئ میں آخری اطلاعات تک دھرنا جاری تھا۔
میرا خیال ہے کہ حکومت کے خلاف ہر محاذ پر ڈور کس لیا گیا ہے۔ اس لیے حکومت کے پاس شائد اب بھی وقت ہے کہ وہ ہوش سے کام لے کر جنگی بنیادوں پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر ہم آہنگی پیدا کرے۔ آزادانہ اور خود مختار فیصلوں سے حکومت کی گلو خلاصی ہوسکتی ہے۔ پی ٹی ایم کے مطالبات کو ماننے سے ایک طرف وزیرستان میں آنے والے انتخابات میں اس کی پوزیشن بہتر ہوسکتی ہے، تو دوسری طرف جاری چپقلش بھی ختم ہو سکتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن پارٹیاں مل بیٹھ کر میثاقِ معیشت کرلیں۔ حل کی طرف آئیں۔ مزید بگاڑ سے ملک مزید مخدوش صورتحال سے دوچار ہوگا۔ "کنفرنٹیشن” سے سوائے تباہی کے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔