بحران در بحران اور عوام

پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں اس وقت جو بحرانی اور گھمبیر صورت حال ہے۔ اس سے قبل بڑے بڑے بحرانوں اور حادثات کے وقت بھی اس طرح کی صورت حال پیدا نہیں ہوئی، لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا اور سانحات اچانک پیش نہیں آتے بلکہ اس کے پس منظر میں غفلتوں، کوتاہیوں اور نالائقیوں کی ایک پوری تاریخ ہوتی ہے۔ اس وقت کی بحرانی کیفیت کے پیچھے بھی ایک پوری تاریخ ہے۔
1947ء تا 1958ء جاگیردار سیاست دانوں، بیورو کریسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے جس انداز میں حکمرانی کی۔ اقتدار کی کرسی کے لیے جو سازشیں، جوڑ توڑ اور ریشہ دوانیاں کیں۔ اس کے نتیجے میں ایوب خان نے 1958ء میں ان کی بساط لپیٹ کر مارشل لا لگا دیا۔ دس گیارہ سالہ ایوب خانی ڈکٹیٹر شپ کے بعد یحییٰ خانی فوجی حکومت ڈھائی تین سال تک جس طرح ملکی و قومی معاملات چلاتی رہی اس کا نتیجہ ملک کے دو ٹکڑے ہو کر بنگلہ دیش کے قیام کی شکل میں سامنے آیا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا چھے سالہ دورِ حکومت ہے جس میں اگرچہ ملک و قوم کے مفاد میں کچھ بنیادی فیصلے اور اقدامات بھی کیے گئے، لیکن حکومت اور سیاست کا عمومی انداز وہی رہا۔ اس کے بعد ضیاء الحق کا گیارہ سالہ فوجی دورِ حکومت ہے، اس میں اگر ایک طرف روس جیسی عالمی طاقت کے خلاف افغان جہاد میں کامیابی ملی اور ایک عالمی طاقت تحلیل ہوکر ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی، تو دوسری طرف ایم کیو ایم جیسا لسانی فتنہ باقاعدہ طور پر تخلیق کیا گیا، جس نے طویل عرصہ تک کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کو دہشت گردی، بدامنی اور قتل و غارت گری کے ذریعے یرغمال بنائے رکھا۔ ضیاء الحق کے دور میں صوبائیت، لسانیت اور مذہبی فرقہ واریت کو فروغ ملی، اور اس تمام تاریخ میں انگریز کا یہ فارمولہ کارفرما رہا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ مطمحِ نظر صرف اقتدار تھا اور اقتدار ملنے کے بعد اس کو مستحکم و باقی رکھنا تھا۔ ضیاء الحق کے بعد موجودہ سیاست دانوں کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں نمایاں بات حکمرانوں کی کرپشن اور غیر ملکی مداخلت ہے۔ بے نظیر بھٹو، زرداری اور نواز شریف کرپشن میں برطرف ہوئے اور غیر ملکی مداخلت یہاں تک پہنچ گئی کہ ملک ایک معنی میں ’’بنانا سٹیٹ‘‘ بن کر رہ گیا۔قومی خود مختاری خواب و خیال بن کر رہ گئی۔ 72 سالہ تاریخ میں ملک بتدریج بد سے بدتر اور بدتر سے بدترین کے مرحلے تک پہنچ گیا اور آج پوری قوم کو ایک بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ پوری قومی قیادت کرپشن زدہ ہو کر نااہل ہوگئی ہے۔ نواز شریف جیل میں ہے۔ زرداری منی لانڈرنگ کیسوں میں عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ بھٹو خاندان کا نیا سیاسی جانشین ذہنی و فکر ی طور پر ایک نابالغ لڑکا ہے۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی تو حقیقت میں اقتداری پارٹیاں ہیں۔ اگر اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہو، تو پارٹی قائم، ورنہ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر کر تحلیل ہو جاتی ہے۔ عالمی طاغوت نے اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھ کر اپنا ایک نیا مہرہ بساطِ سیاست پر آگے بڑھایا۔ اس کو انداز ہ ہوا کہ پرانے مہرے پٹ گئے اور مزید کام کے نہ رہے۔ عوام میں ان کی ساکھ نہ رہی، تونہایت منظم طریقے سے عمران خان کی شخصیت کو ابھارا گیا۔ ان کی امیج بلڈنگ کی گئی۔ ان کی خوبیوں کو پروپیگنڈے کے ذریعے اجاگر کیا گیا اور آخرِکار 2018ء کے الیکشن میں ان کو منصوبہ بندی کے ساتھ جتوایا گیا۔ عمران خان کی کامیابی میں بھی خامیاں اور کمزوریاں باقاعدہ طور پر رکھ دی گئیں، تاکہ قابو میں رہے اور بے لگام نہ ہو اور ہدایات کے مطابق ڈیوٹی انجام دے۔ پہلی کمزوری یہ کہ مکمل اور بھر پور مینڈیٹ نہیں دیا گیا۔ اگر ایک صوبے میں اکثریت ہے، تو پنجاب میں دوسروں کا دست نگر اور محتاج۔ مرکز میں بھی دوسرے گروپوں کے بغیر حکومت قائم نہیں کرنے دی گئی۔ اس طرح پارٹی بھی چوں چوں کا مربہ۔ پارٹی میں کوئی قابل ذکر نیک نام اور قابلیت و صلاحیت رکھنے والا آدمی شامل نہیں ہوا۔ ایسے میں جب کابینہ بنانے کا وقت آیا، تو ایسے ایسے نا تجربہ کار، نااہل اور سیاست و حکومت سے نا بلد افراد کو شامل کیا گیا، جنہوں نے سیاست اور قیادت کو مضحکہ بنا کر رکھ دیا۔ کہاں کنٹینر پر کھڑے ہو کر معیشت کو بحال اور ترقی دینے کے دعوے تھے، یو اے ای سے دو سو ارب ڈالر لانے کے دعوے تھے، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے اور قرضے نہ لینے کے لاف و گزاف تھے، اور کہاں اب یہ صورتحال کہ آئی ایم ایف کے ساتھ آتے ہی امداد کے لیے مذاکرات کا چکر اب تک چل رہا ہے۔ ان کی تمام شرائط امداد سے پہلے ہی مان لی گئی ہیں اور اب امداد دینے سے پہلے وہ مزید ٹیکسوں کے نفاذ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کابینہ کے اجلاس صرف اس لیے منعقد کیے جاتے ہیں کہ عوام کو مزید ٹیکسوں اور گرانی و مہنگائی کی نویدیں سنائی جائیں۔ جس آئی ایم ایف پر لعنت بھیجتے تھے، اب اسی کے حاضرِ سروس ملازم کو سٹیٹ بنک کا گورنر مقرر کیا، اور ایف بی آر پر بھی ایک ایسے متنازعہ شخص کو مسلط کیا گیا، جس کے بارے میں خود ایف بی آر میں اختلاف رائے موجود ہے۔

صدر ضیاء الحق انگریز کے وضع کردہ فارمولے "لڑاو اور حکومت کرو” کے قائل تھے۔ (Photo: Pakistani.PK)

حکمران کی اصل صلاحیت و اہلیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ وہ کیسے افراد کو اپنی ٹیم میں شامل کرتا ہے۔ اگر آپ عمران خان کی ٹیم کا جائزہ لیں،تو بغیر کسی تردد کے آپ کو آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ پوری ٹیم ہی نااہل افراد پر مشتمل ہے۔ مرکزی کابینہ کو دیکھ لیں، صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وزیروں مشیروں کو دیکھ لیں، جن کا انتظامیہ پر کوئی کنٹرول نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی حکومت سرے سے موجود ہی نہ ہو۔ ہر محکمہ اپنی جگہ ایک گینگ اور مافیا بنا ہوا ہے۔ صرف اپنی تنخواہوں، مراعات اور حقوق کے لیے تو بر سر کار اور مستعد ہیں، لیکن عوام کی خدمت کرنے اور مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی وقت ہی نہیں۔ ضلعی انتظامیہ اپنے حال میں مست ہے، ان کو مہنگائی اور گرانی کی خبر ہے اور نہ اس کے سدباب کے لیے کوئی فکر و تردد۔ اختیار و اقتدار کے نو ماہ ہوگئے، لیکن کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع ہوا اور نہ عوامی مفاد کا کوئی منصوبہ ہی سامنے آیا۔ بس خالی خولی نعرے اور بیانات۔ بھلے آدمی آپ نے دیگر تمام مسائل حل کیے کہ 30 ہزار دینی مدارس کو محکمۂ تعلیم کی نگرانی میں دے کر قومی دھارے میں لانے کی بات کرتے ہیں۔ آپ کی حکومت تو موجودہ ابتر تعلیمی صورتحال کو کنٹرول نہ کر سکی۔ ملک میں پہلے ہی سے کئی قسم کے نظام تعلیم کے ادارے چل رہے ہیں۔ کوئی انگلینڈ کا نصاب پڑھا رہا ہے، کوئی امریکہ اور سنگاپور کا۔ آپ سرکاری طور پر تعلیمی اداروں کے لیے نہ تو عمارتیں فراہم کر سکے اور نہ چٹائیاں۔ اوپر سے بیرونی دباؤ کے تحت مدارس کا نظام بھی اپنے ذمے لے رہے ہیں۔ مدارس کے نصاب اور انتظام میں اصلاحات اگر نیک نیتی کے ساتھ ہوں، تو بے شک اسی کی ضرورت ہے، لیکن آپ تو سب کچھ بیرونی دباؤ کے تحت کر رہے ہیں۔ معیشت کو تو آپ نے آئی ایم ایف کے حوالے کیا۔ اب اس کی انتظامیہ ہمارے لیے بجٹ بنائے گی۔ روپے کی قدر میں مزیر کمی کرے گی۔ ڈالر کی قیمت اور بڑھ جائے گی جس کے نتیجے میں بیرونی قرضوں کا حجم اور بڑھ جائے گا۔ پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ تعلیم کا محکمہ بھی آپ این جی اوز کے حوالے کر دیں۔ تاکہ وہ اپنی مرضی کا نصاب رائج کر سکیں۔ دینی مدارس کا نظام ان کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے۔ اس کو بھی قومی دھارے میں شامل کر کے تحلیل کریں، تاکہ قوم کی رہی سہی دینی حس بھی ختم ہو جائے اور مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک ایسا لبرل، مادر پدر آزاد امریکی معاشرہ وجود میں آئے جو عالمی طاغوت کے لیے قابلِ قبول ہو۔
قارئین، اس مقصد کے حصول کے لیے تو عالمی طاغوت نے برسوں پر مشتمل باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کی، تب کہیں جا کر عمران خان کی شکل میں اپنی ایک پوری ٹیم میدان میں اتاری، لیکن شاید ان کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ ٹیم اتنی نالائق اور نکمی ہوگی کہ پہلے ہی مرحلے میں ایکسپوز ہو جائے گی۔ ویسے بھی پاکستانی معاشرہ اور لوگ بڑے سخت جان ہیں۔ یہ لوگ بڑے بڑے بحرانوں سے گزرے ہیں۔ ان میں موجود پوشیدہ اسلامی حس جب بیدار ہوگی، تو عمران خان کی نااہل ٹیم بھی خائب و خاسر ہو کر میدان سے غائب ہو جائے گی اور ان شاء اللہ عالمی طاغوت کا تمام مکر و فریب پر مشتمل منصوبہ بھی خاک میں مل جائے گا۔ سکندر مرزا تا ایوب خان، اور بھٹو تا زرداری اور نواز شریف تمام سیاست دانوں کا عبرت ناک انجام سب کے سامنے ہے۔

……………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔