مجھے وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب ہم بچے تھے، اور اسکول میں پڑھتے تھے۔ اس وقت لاہور کے کئی اشاعتی ادارے بچوں کے لیے چھوٹی بڑی کہانیاں بڑے اہتمام سے شائع کرتے تھے۔ ان اداروں میں ’’شیخ غلام علی اینڈ سنز‘‘ اور ’’فیروز سنز‘‘ کے نام زیادہ نمایاں تھے۔ یہ ادارے پچاس پیسے اور ایک روپے کی چھوٹی چھوٹی دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں بھی بڑے بڑے ادیبوں سے لکھواتے اور انھیں خوب صورت انداز میں طبع کرواکر ملک بھر میں پھیلاتے تھے۔ اس طرح بچوں کے رسالے بھی بڑی تعداد میں شائع ہوتے تھے جن میں ہمدرد نونہال، تعلیم و تربیت، جگنو، بچوں کا رسالہ، بچوں کا باغ، ٹوٹ بٹوٹ وغیرہ بچوں میں بہت مقبول تھے۔ ہم پاکٹ سائز کی ان چھوٹی بڑی کہانیوں کو بڑی رغبت سے پڑھتے اور ہر ماہ مذکورہ رسائل کا شدت سے انتظار کرتے۔
اس زمانے میں بچوں کے لیے بہت لکھا جاتا تھا۔ بڑے ادیب بھی بچوں کے لیے لکھتے تھے۔ ان میں مرزا ادیب، اشتیاق احمد، مظہر کلیم، حکیم محمد سعید اور مسعود احمد برکاتی جیسے قد آور لکھنے والے شامل تھے۔ ان بڑے ادیبوں کی فہرست کافی طویل ہے، جن کا تذکرہ ان مختصر تعارفی کلمات میں ممکن نہیں، تاہم اس دور کے لکھنے والوں میں ایک نمایاں نام شجاعت علی راہیؔ صاحب کا بھی ہے۔ انھوں نے نہ صرف بچوں کے لیے نثر میں لکھا بلکہ بچوں کے لیے اُن کی لکھی گئی نظمیں تواتر سے بچوں کے مختلف رسائل کی زینت بنتیں۔ اب تو اس دور کی صرف خوب صورت یادیں ہی دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں، وہ سنہرا دور ہمارے لیے بھی ختم ہوچکا ہے اور موجودہ نسل کے بچے بھی اس دور کے مطالعہ کی لذتوں سے محروم ہیں۔ اب کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سمارٹ موبائل فون کا دور ہے۔ اس لیے نئی نسل کی دل چسپی کتاب یا رسالے میں وہ نہیں رہی ہے جو ہمارے بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ بچوں کے لیے کہانیاں اور معلوماتی کتابیں شائع کرنے والے مشہور ادارے یا تو بند ہوچکے ہیں اور یا وہ بچوں کی کتابیں شائع کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ اس طرح انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی (اسلام آباد) میں دعوۃ اکیڈمی کے نام سے بچوں کے ادب کی ترقی و فروغ کے لیے ایک شعبہ ہوا کرتا تھا جس کے انچارج محمد افتخار کھوکھر صاحب تھے۔ وہ ہر سال ملک بھر سے بچوں کے لیے لکھنے والے نوجوان ادیبوں کو بلاتے اور سات دنوں پر مشتمل ان کے لیے تربیتی ورکشاپ منعقد کراتے جن میں ملک کے بڑے ادیبوں کو بھی بلایا جاتا جو مختلف موضوعات پر ان نوجوان لکھنے والوں کو لیکچر دیتے جس سے نہ صرف ان کی لکھنے کی صلاحیت کو جِلا ملتی بلکہ انھیں یہ بھی سمجھایا جاتا کہ بچوں کے لیے بامقصد اور مثبت ادب کیسے تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ ان ورکشاپس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا تھا کہ ملک بھر کے نوجوان لکھنے والوں کو آپس میں مل بیٹھنے اور تبادلۂ خیال کرنے کا موقع ملتا۔ ان میں کئی پروگراموں میں مجھے بھی شرکت کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ نہیں معلوم اب دعوۃ اکیڈمی (شعبہ بچوں کا ادب) موجود بھی ہے یا نہیں اور اگر اب بھی وجود رکھتا ہے، تو اردو میں بچوں کے لیے دَم توڑتے ادب کے لکھنے والے کتنے رہ گئے ہیں جن کے لیے ہر سال سات سات دنوں پر مشتمل پروگرام رکھے جائیں۔ اس زمانے میں دعوۃ اکیڈمی (شعبہ بچوں کا ادب) کے زیر اہتمام بچوں کے لیے نہایت عمدہ اور معیاری کتابیں شائع کی جاتی تھیں جس کے لیے نامور لکھنے والوں کی خدمات حاصل کی جاتیں لیکن اب نامور لکھنے والوں کی دلچسپی کا محور بھی شاید بدل چکا ہے، کیونکہ وطن عزیز میں صرف بچوں کا ہی ادب زوال پذیر نہیں بلکہ مجموعی طور پر کتاب کلچر بھی بتدریج معدوم ہوتا جا رہا ہے۔
یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کے لیے نئے دور کے جدید تقاضوں کے مطابق بہت کم لکھا جاتا ہے، لیکن جو چند ایک ادیب اور شاعر بچوں کے لیے اب بھی بامقصد اور معلوماتی ادب تخلیق کرتے ہیں، ان میں شجاعت علی راہیؔ صاحب کا اسمِ گرامی بہت نمایاں ہے۔ انھوں نے اب تک بچوں کے لیے 16 سے زائد کتابیں لکھی ہیں جن میں ناولٹ، کہانیاں، ڈرامے اور نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔
’’سرخ سیارہ‘‘ استادِ گرامی شجاعت علی راہیؔ صاحب کا بچوں کے لیے ایک نیا ناولٹ ہے۔ یہ ناولٹ بھی ان کے سابقہ ناولوں کی طرح دل چسپ اور معلوماتی ہے۔ اس میں حسبِ سابق راہیؔ صاحب نے ایسا اسلوب اپنا رکھا ہے جو بچوں میں خیر و نیکی اور پوری انسانیت کے لیے امن و آشتی کی خواہش جیسے اوصاف اُجاگر کرتا ہے۔ اس طرح راہیؔ صاحب بچوں کے لیے لکھی گئی اپنی ہر تحریر میں انھیں شعوری طور پر نہایت شستہ اور غیر محسوس انداز میں کتابوں سے لگاؤ اور سچ بولنے پر کاربند رہنے کی تلقین ضرور کرتے ہیں۔
’’سرخ سیارہ‘‘ کے تمام کردار ان کے بچوں کے گرد گھومتے ہیں جن میں ان کی پوتیاں، پوتا اور نواسیاں، نواسہ شامل ہیں۔ موجودہ ناول کا مرکزی کردار ان کی ایک سال کی پوتی زہاب زہرا ہے جسے راہیؔ صاحب بہت چاہتے ہیں۔ وہ ہر روز اپنی فیس بُک وال پر اس کی ایک پیاری سی خوب صورت تصویر شبنمی قطروں میں گھلے صبح بخیر کے تازہ پیغام کے ساتھ اَپ لوڈ کرتے ہیں۔ یوں زہاب زہرا کا ہنستا مسکراتا دل کش چہرہ فیس بک استعمال کرنے والے شائقین میں خاصا جانا پہچانا بن گیا ہے۔ شجاعت علی راہیؔ صاحب کو اپنے سب بچوں سے بے حد پیار ہے لیکن زہاب زہرا ان کی چہیتی اور بہت ہی معصوم صورت پیاری پوتی ہے جو انھیں دل و جان سے عزیز ہے۔ ہر روز اس کی ایک نئی تصویر ان کی فیس بُک وال پر خنداں و فروزاں راہیؔ صاحب کی اس کے ساتھ غیرمعمولی شفقت و محبت کا مظہر ہے۔
’’سرخ سیارہ‘‘ ایک نئے اور اچھوتے موضوع پر لکھا گیا ناولٹ ہے جسے ہم بچوں کے لیے اردو میں لکھی گئی سائنسی کہانیوں (Science Fictions) میں ایک گراں قدر اضافہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس ناولٹ کی کہانی کے تانے بانے ایسے بُنے گئے ہیں جس میں بچوں کے لیے نئی معلومات کے ساتھ ساتھ سسپنس اور دل چسپی کا بھی پورا خیال رکھا گیا ہے۔ اس ناولٹ کا چونکا دینے والا واقعہ وہ ہوتا ہے جب زہاب زہرا آدھی رات کو اپنی ماں کے پہلو سے غائب ہوجاتی ہے اور صبح جب گھر کے تمام افراد پریشانی کے عالم میں اس کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں، تو وہ اپنی بڑی بہن انمول کے بستر پر پائی جاتی ہے۔ اصل پریشانی کی بات یہ ہوتی ہے کہ زہاب زہرا تو خود چل پھر نہیں سکتی، اور انمول بھی اسے اپنے کمرے میں لانے سے انکار کرتی ہے، تو پھر وہ اس کے ساتھ بستر میں کیسے موجود ہوتی ہے؟ دوسرے واقعہ میں زہاب زہرا سمیت انمول اور اس کی کزن گل اندام بھی رات کے وقت پُراسرار طور پر غائب ہوجاتی ہیں۔ سب گھر والے اس بات پر حیران اور پریشان ہوتے ہیں کہ جب گھر کے تمام دروازے بند ہیں اور اندر سے بولٹ لگے ہوئے ہیں، تو پھر کوئی بچوں کو اٹھاکر کیسے لے گیا؟ اس ناولٹ میں اس طرح کے حیران کن واقعات بچوں کے لیے دل چسپی کا باعث ہیں۔ پورے ناولٹ میں سائنسی معلومات، سسپنس اور دل چسپی کے عناصر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ان بچوں کو دراصل مریخ کی ایک شہزادی اپنے ساتھ مریخ لے جاتی ہے جہاں ان بچوں کو ہر طرف حیرت کی ایک دنیا نظر آتی ہے۔ یہ بچے کم وقت میں مریخ تک کیسے پہنچ جاتے ہیں اور پھر ان کی واپسی کیسے ہوتی ہے، سائنس کے اس اعجاز کو جاننے کے لیے اس ناولٹ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔
’’سرخ سیارہ‘‘ میں مریخ کے حوالے سے زندگی کا ایک تصوراتی خاکہ پیش کیا گیا ہے جہاں زندگی ایک نئے انداز میں موجود ہے۔ یہ انداز کیا ہے اور وہاں کے لوگوں نے سائنسی ترقی کی کون سی منزلیں طے کی ہیں؟ ناول پڑھ کر حیرت اور دل چسپی کے نئے در وا ہوتے ہیں۔
’’سرخ سیارہ‘‘ کے تخلیق کار شجاعت علی راہیؔ صاحب کا اندازِ تحریر نہایت رواں دواں ہے۔ زبان و بیاں بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق ہے ، تاہم کہیں کہیں بچوں کو نئے اور قدرے مشکل الفاظ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، لیکن اس سے بچوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوگا اور وہ زبان کے حوالے سے بھی کچھ نیا ہی سیکھ سکیں گے۔
بچوں کے لیے شجاعت علی راہیؔ صاحب کی تخلیقی کاوشیں قابل قدر ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان کا نام نامی بچوں کے ادب میں بھی ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔