پچھلے دنوں مَیں اور روح الامین نایابؔ صرف اور صرف چند کتابوں کی غرض سے پشاور گئے۔ اکادمی ادبیات پشاور اور پھر یونیورسٹی بک ایجنسی سے چند ایک کتب خریدیں۔ پھر ہم محلہ جنگی آئے جہاں ایازاللہ ترکذئی جیسے شہداور گھی کے گھڑے اپنے پبلشنگ ادارے ’’اعراف پرنٹنگ‘‘ میں کتابیں چھاپنے کے ساتھ ساتھ محبتیں بھی بانٹتے ہیں۔ کیا سیدھے سادے، مخلص اور ادب دوست انسان ہیں۔ ہم جب بھی اُن کے پاس گئے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کے جھرمٹ ہی میں اُنہیں پایا۔ اِس بار جب ہم اُن کے دفتر میں داخل ہوئے، تو حسبِ معمول اِک جمگھٹا موجود تھا، جن میں کوئٹہ کے عبدالکریم بریالےؔ، محمدگل بیتاب، محقق رشیداحمداور ایڈورڈز کالج کے سمیع الدین ارمانؔوغیرہ جیسے لوگ موجود تھے۔ کوئٹہ کے عبدالکریم بریالےؔ جو شکل وصورت، ہیئت اور ڈیل ڈول سے بھی ادیب ہی لگ رہے تھے۔ مجھے بھینچ کر سینے سے لگایا اور پھر میرے ہاتھ کی کتابیں اُلٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد کہا ’’ادب کے سنجیدہ قاری لگتے ہو!‘‘ اِن کتابوں میں مکتوب نگاری کے حوالے سے بھی اِک کتاب تھی۔ دیکھ کے کہنے لگے: ’’نثار کی بیوی والی کتاب پڑھی ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’جان نثار اختر اور اُن کی بیوی صفیہ اختر کی بات کر رہے ہیں؟‘‘ کہنے لگے: ’’ہاں ہاں اُسی کی۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں! ’’زیرِلب‘‘ پڑھ رکھی ہے۔‘‘ تب اُنہوں نے اپنی تازہ بہ تازہ کتاب ’’ختمِ نبوت اور اُن کے سیاسی متنبی (قادیانی اور بہائی)‘‘ تھیلے سے نکال کر اپنے دستخط مع موبائل نمبر لکھ کر مجھے تحفتاً دی۔ ایک کتاب نایابؔ صاحب کو بھی دی۔ ایک گھنٹا تک اُن سے گفتگو ہوئی۔ کیا کمال کے آدمی تھے اور علم وہنر کا تو وہ سمندر تھے ہی۔
گھر آکر سب سے پہلے اُنہی کی کتاب کھولی 402 صفحات کی یہ ضخیم کتاب 30 مختلف ابواب پر مشتمل ہے، جن میں قادیانیت کے اسباب، اہداف اور عزائم کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ قادیانیت پہ لکھی گئی کتب ان کی تشکیلات، استدلال اور پھر ان کے توڑ پہ ختم نبوت تحریک کے محرکات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ آخر میں مسلم لیگ اور اس کی اتحادی حکومت کا ختم نبوت پر حملہ کرنے کی جسارت کا احوال بھی لکھا گیا ہے۔اِسی کتاب کے صفحہ نمبر 285 سے لے کر 304 تک دو مختلف مضامین میں صاحبِ کتاب نے سعداللہ جان برقؔ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اُنہوں نے کیا لکھا؟ (ذیل میں اُن کے الفاظ اور جملے بغیر تحریف، تخفیف یا اضافت کے مِن وعن تحریر کیے جاتے ہیں۔)
’’سعداللہ جان برقؔ اردو اور پشتو کے لکھاری اور ڈرامہ نگار ہیں۔ نوشہرہ ڈاگ بیسود میں اپنے چند گھرانوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ احمدیت اِس صدی میں اُنہیں ورثے میں ملی۔ قوم اندنڑ خلجی سے تعلق ہے، جن میں ایک شخص امیر حبیب اللہ کے زمانے میں خوست افغانستان میں سنگسار ہوا تھا۔‘‘’’اُنہوں نے آنجہانی طاہر احمد کی انگریزی کتاب کے عقائد کو اردو اور پشتو میں پیش کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ اُنہیں احمدیت کی تبلیغ سے غرض ہے، پاکستان یا مسلمان سے نہیں۔‘‘ ’’قادیانی قرآن کی 115 سورتیں مانتے ہیں۔ جن میں تحریف کی ہے ان کا تو ذکر ہی کیا۔‘‘ ’’بے خبر برقؔ کہتا ہے کہ اعوذبااللہ من الشیطان الرجیم قرآن کی آیت ہی نہیں۔‘‘برق کہتا ہے کہ ’ ’ڈارون اور قرآن کا نظریہ ایک ہے۔‘‘
مزید لکھتا ہے کہ ’’انسان کا خالق خدا ہے یا انسان خدا کا خالق ہے؟‘‘، ’’سعداللہ جان برقؔ نے احمدیوں کا مبلغ بن کر خاتم النبین کے مقابلے میں ایک جھوٹا نبی کھڑا کرکے عیسائیوں اور مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ اور ایک جھوٹ کی حدیث گھڑ لیتے ہیں جس میں نہ راوی کا نام ہے اور نہ کتاب کا۔ لکھتے ہیں۔ کان فی الہند اسمہ کا ہنا۔ (ترجمہ): ہندستان میں ایک نبی پیدا ہوا تھا جس کا نام کاہنا تھا۔ کاہنا کو برقؔ نے کرشن کے ساتھ باندھ لیا جس کا یہ مطلب ہوا کہ مرزا غلام احمد ہندو تھے اور بین السطور میں مسیح موعود کی گنجائش نکا لتا ہے۔ برقؔ سے یہ بعید نہ تھا۔‘‘ ’’برقؔ کی واہیات اور بھی ہیں کہ آدم کا خلیفہ بننے اور تخلیق کے قصے اور فرشتوں کے پہلے گھوڑوں جیسی مخلوق موجود تھی۔‘‘
بریالیؔ کہتے ہیں کہ ’’اس کا علم انہیں کسی الہام کے ذریعے ہوا کہ کسی آسمانی کتاب میں تو اس کا ذکر نہیں۔ ’’ایسی خرافات قرآن کی تفسیر باالرائے اک گمراہ کُن عمل ہے۔‘‘ ’’یوں برقؔ ایک پشتو مزاح نگار سے احمد مفسر بن گئے۔‘‘
بریالیؔ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ’’پشتو زبان و ادب کی طویل خدمت کے بعد احمدیت کی واشگاف الفاظ میں تبلیغ کی جرأت کرنا اک معمہ ہے۔ معلوم نہیں مدرسوں کے ملا اور سیکولر قوم پرست پارٹیوں کے سربراہ یا کوئی خفیہ طاقت انہیں اِس غلط اقدام پر مجبور کر رہے ہیں یا خبثِ باطن ہے۔ لیکن اس کے مطالعے سے بقول مرزا، خبثِ عظیم ظاہر ہوا ہے۔‘‘ ’’مسلمانوں کا فریضہ بنتا ہے کہ اس مسئلے پر غور کریں اور انہیں توبہ نکالنے کا موقع دیں۔‘‘
یہ تھے کوئٹہ کے عبدالکریم بریالےؔ صاحب جنہوں نے برقؔ صاحب کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ چوں کہ یہ ایک مذہبی تنازعہ ہے اور مذہبی تنازعات کو چھیڑنا ہمارے معاشرے میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس لیے میں یہ فیصلہ قارئین پہ چھوڑ کے اک پاسے ہو جاتا ہوں کہ کیا سعداللہ جان برقؔ حق پہ ہیں یا عبدالکریم بریالےؔ؟ چوں کہ میں عالم نہیں، اس لیے مجھے معاف ہی رکھو۔
……………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔