خلافتِ راشدہ کا بہترین دور گزر چکا تھا۔ قبائلی عصبیت پر مبنی دورِ ملوکیت کے دوران میں ہر قسم کی افراط وتفریط اور شخصی حکمرانی کے نتائج برگ و بار لاچکے تھے۔ امیرِ معاویہؓ سے لے کر یزید بن معاویہ، مروان بن حکم اور عبدالملک بن مروان سے لے کر ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک تک یہ پورا خاندانی نظامِ حکومت جاری تھا۔ حجاج بن یوسف ثقفی اس دوران میں اتنا مختارِ کل تھا کہ ایک لاکھ بیس ہزار افراد کو بغیر کسی وجہ کے بے گناہ قتل کر چکا تھا۔ بصرے میں اس کا قصر گورنر ایک قصاب خانہ تھا، جس میں لوگوں کو اس کے ایک اشارۂ ابرو پر اس کے سامنے قتل کر دیا جاتا تھا۔ ان قتل ہونے والوں میں وقت کے بڑے بڑے صلحائے امت، محدثین کرام، فقہا اور قرآن و سنت کے جید علمائے کرام شامل تھے۔ یہ سب اس وجہ سے قتل کیے گئے کہ حکومت کے ظالمانہ، جابرانہ اور قرآن و سنت کے خلاف فیصلوں اور اقدامات پر تنقید کرتے تھے۔ اس دوران میں خصوصاً ولید بن عبدالملک کے دور میں فتوحات ہوئیں۔ سندھ، وسطی ایشیائی ممالک اور سپین فتح ہوئے اور بڑے بڑے فاتحین اور جرنیل محمد بن قاسم، قتیبہ بن مسلم ، طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر جیسے مجاہد بھی تاریخ کا درخشاں باب بن گئے۔ ان مجاہدین سپہ سالاروں کے ذریعہ اسلام، دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا۔ لیکن خلافت کے ختم ہونے اور ملوکیت کے تسلط کی وجہ سے عدل و انصاف کا نظام ختم ہو چکا تھا اور خیر وبرکت اُٹھ گئی تھی۔ بنو امیہ نے شاہی خاندان کی شکل اختیار کی تھی اور ایک حکمران کے بعد اس کا بھائی یا بیٹا تخت سلطنت پر بیٹھتا تھا اور پہلے ہی سے لوگوں سے اپنے ولی عہد کے لیے بیعت لیتا تھا۔ اس کے نتیجے میں تمام صوبائی حکومتوں میں ایسے افراد تعلقات اور رشتہ داری کی بنیاد پر تعینات کیے گئے تھے جو حد درجہ ظالم، جابر اور عوام دشمن تھے، لیکن چوں کہ ایک تو اسلامی نظامِ قانون شریعت لاگو تھا۔ دوسرا، معاشرے میں نیک اور صالح افراد کی کثرت تھی۔ معاشرتی بگاڑ اگرچہ آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا لیکن اتنا تیز رفتار نہیں تھا کہ پورے معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے سکے۔ شخصی حکمرانی اور فردِ واحد کی مرضی و منشا کی یہ کیفیت بھی تاریخ میں درج ہے کہ ولید بن عبدالملک کے دورِ حکومت میں چین و آذربائیجا ن، سند ھ اور سپین اور افریقہ فتح کرنے والے نامور مجاہد سپہ سالار، سلیمان بن عبدالملک کی ذاتی دشمنی کا شکار ہو کر نہایت ظالمانہ، بہیمانہ اور کسمپرسی کے عالم میں قتل کیے گئے اور عالمِ اسلام کو ان جلیل القدر سپہ سالاروں کی جرأت و صلاحیت اور اخلاص سے محروم کیا گیا۔ لیکن اللہ رب العالمین نے انسانیت کو اپنے دینِ اسلام کی برکات و حسنات کے ذریعے ایک اور موقع دے کر آزمایا۔ خلافتِ راشدہ کے چالیس سالہ عدل و انصاف اور خیر و برکت پر مبنی نظام کی برکات و حسنات کو انسانوں نے اپنے ذاتی اغراض و مفادات اور گروہی عصبیتوں کی بنیاد پر ختم کر دیا تھا۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہی انسانوں کو ملوکیت و خاندانی حکومت اور شخصی حکمرانی کے نتیجے میں ظلم و عدوان کے مناظر دکھا کر سوچنے سمجھنے والوں کے سامنے خلافت و ملوکیت کا فرق واضح کیا۔ اب ایک بار پھر اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین نے اپنی قدرت و مشیت کے ذریعے ایسا انتظام کیا کہ عالمِ انسانیت کو ایک بار پھر خلافت الٰہی کی برکات و حسنات کی ایک جھلک دکھائی جائے۔ اور ان کے لیے اللہ احکم الحاکمین نے اسی سلیمان بن عبدالملک کو ذریعہ بنایا، جو ایک عیش پرست اور خود پرست انسان تھا، جو طارق بن زیاد ، قتیبہ بن مسلم اور محمد بن قاسم جیسے مجاہدین کا قاتل تھا اور جس کو عورتوں ، ملبوسات ، خوشبویات اور عیش و عشرت کے سوا کسی اور بات سے سروکار نہ تھا۔ جب اس کا آخری وقت آیا اور وہ مرنے لگا۔ تو اس نے وصیت میں ایک سر بمہر لفافہ اپنے ایک معتمد کے حوالے کیا اور کہاکہ جب مجھے قبر میں دفن کر چکو، تو موجود لوگوں کے سامنے یہ لفافہ کھول کر اس میں درج وصیت لوگوں کو سنانا۔ جب سلیمان بن عبدالملک دفن کر دیے گئے، وصیت کا لفافہ کھولا گیا اور لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا گیا، تو یہ حیرت انگیز اور تعجب خیز وصیت سامنے آئی کہ سلیمان بن عبدالملک نے اپنے جانشین ولی عہد کو چھوڑ کر عمر بن عبدالعزیز جیسے نیک، پاک باز، دین دار، امانت دار اور صالح و متقی شخص کو اپنا جان نشین مقرر کیا تھا۔ لیکن عمر بن عبدالعزیز کی استغنا، عہدہ اور منصب سے بے رغبتی کو دیکھئے کہ انہوں نے وصیت کو یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کیا کہ ایک شخص کو یہ اختیار نہیں اور نہ اس کو یہ حق ہے کہ اپنے بعد کسی کے لیے منصبِ امارت کی وصیت کریں۔ لہٰذا میں اس وصیت کے مطابق عہدۂ امارت کو قبول نہیں کرتا۔ وہ خاندان جس نے اپنی خاندانی عصبیت کو اقتدار و اختیار کے لیے استعمال کیا۔ لاکھوں لوگوں کو قتل کیا اور اقتدار و اختیار کو اپنے خاندان کے لیے خاص کیا۔ اس خاندان میں ایک فرد ایسا بھی تھا، جس نے باوجود اس کے کہ اس کے لیے امارت کی وصیت کی گئی تھی اور تمام سربرآوردہ خاندان و اشخاص اس کی امارت پر راضی تھے۔ اس نے اس جلیل القدر منصب کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آخرِکار لوگوں نے انتخاب کے ذریعے بیعت کرکے اس کو بغیر وصیت اپنا امیر منتخب کیا۔جب وہ امیر مقرر ہو گیا، تو زار و قطار رونے لگا کہ مجھ پر ایک ایسا بارِ گراں رکھ دیا گیاجس کا بوجھ اٹھانے سے میرے کندھے قاصر ہیں۔ بنو امیہ کی قبائلی عصبیت پر قائم شاہی اور خاندانی نظام قائم ہے ۔ غصب کی گئیں جاگیریں، دولت، مناصب اور مراعات لوگوں کو حاصل
ہیں۔ ایک شخص جس کو اللہ رب العالمین نے اپنی مشیت کے تحت خلافت کی ایک جھلک دکھانے کے لئے اٹھا کر کھڑا کیا، عدل و انصاف، برابری و مساوات اور دیانت و امانت کا آغاز اپنے آپ اور اپنے گھر سے شروع کرتا ہے۔ اپنی تمام جائیداد منقولہ و غیر منقولہ بیت المال میں جمع کرتا ہے اور گھر آکر اپنی بیوی سے کہتا ہے۔ جو اسی شاہی خاندان کی ایک شہزادی تھی کہ ’’فاطمہ دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرو۔ یا تو اپنے زرو جواہر پر مشتمل زیورات کو اپنے قبضے میں رکھ کر مجھ سے علیحدگی اختیار کرو اور یا اپنے تمام زیورات اور جائیداد بیت المال میں داخل کرا کر میری رفاقت اختیار کرو۔‘‘ فاطمہ نے سب کچھ بیت المال میں جمع کراکر عسرت و تنگ دستی میں اپنے شوہرِ نام دار کی رفاقت اختیار کی۔ ایک شخص کے بر سرِ اقتدار آنے کی دیر تھی کہ سب کچھ تبدیل ہونے لگا۔ ملوکیت کی جگہ خلافت قائم ہوگئی۔ شاہی دربار اور خدم و حشم ختم کر دیے گئے۔ دربان ہٹا دیے گئے۔ عوام کے لیے ایوانِ خلافت کے دروازے کھول دیے گئے۔ صوبوں میں ظالم گورنر اور حکام ہٹا دیے گئے اور عادل و انصاف پرور اور متقی و پرہیز گار افراد مقرر کیے گئے۔ اپنے لیے دور اندیش، مخلص، بے غرض اور عالم و فاضل مشیر مقرر کیے گئے، جس کے نتیجے میں عدل و انصاف کا دوردورہ ہوگیا۔ خلافتِ راشدہ کا سدا بہار ، پھلدار اور سایہ دار درخت ایک بار پھر تروتازہ اور برگ و بار لانے لگا۔ ذمیوں پر جزیہ اور ٹیکس ختم کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں غیر مسلم اسلام کی نعمت سے بہرہ ور ہوئے اور غیر مسلموں پر ٹیکس کی عدم وصولی سے بیت المال خالی ہوا۔ جب شکایت کی گئی، تو عمر بن عبدالعزیز نے تاریخی جواب دیا کہ ’’رحمت اللعالمینؐ کو اللہ نے محصولچی بنا کر مبعوث نہیں کیا بلکہ ہادی اور رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘
ایک دن کاروبارِ خلافت سے فرصت پا کر گھر تشریف لائے اور گھر میں بیٹیوں کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، لیکن دیکھا کہ بیٹیوں نے منھ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ پوچھا میری بچیوں کیا بات ہے کہ آپ نے منھ پر ہاتھ رکھا ہے؟ بچیوں نے جواب دیا، ’’اباجان! آج ہم نے پیاز کے ساتھ روٹی کھائی ہے۔ہمارے منھ سے پیاز کی بدبُو آرہی ہے۔ ہم نے منھ پر ہاتھ اس لیے رکھا ہے کہ آپ جیسے نفیس طبیعت رکھنے والا انسان بدبُو سے پریشان نہ ہو۔‘‘ عید کے دن بچیوں نے دوسرے بچوں کے خوبصورت اور نئے کپڑے دیکھ کر احساسِ محرومی کے تحت رونا شروع کیا، تو پیار سے سمجھایا کہ میری لختِ جگر اور پیاری بیٹیو، نئے کپڑوں کے لیے باپ کو جہنم میں دیکھنا پسند کرتی ہو؟ بچیاں صبر و شکر اور قناعت کا نمونہ بن کر خاموش ہوگئیں۔ ایک بڑھیانے دو ردراز صوبے سے خط کے ذریعے اپنی شکایت دربارِ خلافت بھیجی کہ ’’مَیں اکیلی اور عمر رسیدہ ہوں۔ میرے گھر کی دیواریں نیچی ہیں۔ لوگ میری مرغیاں چراتے ہیں۔ میری حفاظت کا انتظام کیا جائے۔‘‘ صوبے کے گورنر کو حکم بھیجا گیا کہ خود اپنی نگرانی میں خاتون کے گھر کی مرمت اور مکمل دیکھ بھال کرو۔
جس غلام کے ذریعے زہر دیا گیا۔ اس سے دمِ نزع میں کہا کہ ’’بھاگ جاؤ۔ ورنہ یہ لوگ تمہیں قتل کر دیں گے۔‘‘
ایسی ہوتی ہے خلافت اور ایسے ہوتے ہیں ’’خلیفۃ اللہ فی الارض۔‘‘
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔